| میں تیرے ہجر کا نوحہ گر |
| تیری محبت کے سمندر میں ڈوب کر |
| تیری فرقت کی ساری اذیتوں کو |
| حوالہ قرطاس کرتا ہوں |
| قلم کی نوک کے نیچے |
| ہجر گوئی کرتے سارے شبدوں کو |
| بے لباس کرتا ہوں |
| عین ممکن ہے کہ |
| میرے قلم سے لکھے گئے سارے لفظ |
| میرے کرب کے وجود میں نہ ڈھل سکیں |
| یہ بھی ممکن ہے کہ |
| میرے کرب کی شدت سے |
| میرے لفظوں کو جرات گفتار نہ ہو |
| یہ بھی ممکن ہے کہ |
| میرے غم کی حدت سے راکھ ہو جائیں |
| آسودہ خاک ہو جائیں |
| ہاں مگر مجھ کو یقینِ کامل ہے |
| کہ جیسے گئے دنوں میں |
| تم میرے ادھورے لفظ |
| میرے ان کہے دکھ |
| میرے لبوں کا سکوت |
| اور میری سوچوں کا محور |
| سب جان لیتے تھے |
| میں جانتا ہوں کہ |
| اب کی بار بھی تم جان لو گے مگر |
| اب کے بار بھی حسب روایت |
| میرےفنِ نوحہ گری پر داد دو گے |
| مگر چپ رہو گے |
| میں تیرے ہجر کا نوحہ گر |
| پھر اک اور اذیت کا جہاں لے کر |
| اپنے شبدوں کے جال بُنوں گا |
| پھر کوئی تازہ نوحہ کہوں گا۔ |
معلومات