لوٹ کے یوں تیرے کوچے سے ہم جاتے ہیں
جیسے دلِ بیمار سے رنج و الم جاتے ہیں
اب تو طوفاں کے جیسے میرے آنگن میں غم
دوڑ کے آتے ہیں اور آ کے تھم جاتے ہیں
ساقی ترے مے خانے سے ہم یوں اٹھ جاتے ہیں
جیسے شکتسہ بت خانے سے صنم جاتے ہیں
بڑھتے ہوئے غمِ دنیا کو کچھ ہلکا کرنے
سوئے مے خانہ ہم اسیرِ عدم جاتے ہیں
دشمنِ جاں کی گلی کی اور ہمیشہ ساغر
ہم نہ بھی چاہیں تو بھی ہمارے قدم جاتے ہیں

105