کپڑے بدل رکھے ہیں زلفیں بھی سجا رکھی ہیں
تیرے ملنے کی سبھی شرطیں روا رکھی ہیں
تو نہیں ہے تو تیری یادوں کی لہروں پر
کشتیاں الفت کی ہم نے چلا رکھی ہیں
قندیلیں سرِ شام سے روشن ہیں دکھ کی
ویراں آنگن کے کونوں سے لگا رکھی ہیں
لمحہ بھر کا سکوں میسر نہیں ہے ورنہ
سہولیات سبھی ہم نے کما رکھی ہیں
اب وہ نہ آئیں گے یہ تو ہم بھی جانتے ہیں
شمعیں پھر بھی اندھیری شب میں جلا رکھی ہیں
کس کو سنائیں حال دلِ غمگیں ساغر
حسرتیں دل کی ساری دل مٰیں چھپا رکھی ہیں

0
92