| نشاں اگر سجدوں کے جبیں سے جائیں گے |
| یقیں ہے پھر سب خلدِ بریں سے جائیں گے |
| جہاں پہ کانپتا ہے دل بھی سورماؤں کا |
| تو دیکھنا ہم اک دن وہیں سے جائیں گے |
| یہ کہکشاؤں کے جھرمٹ ہماری مٹھی میں ہیں |
| ستارے آسماں کے اب زمیں سے جائیں گے |
| یقینِ کامل لازم ہے عشق میں ورنہ |
| کبھی جو شک میں پڑے تو یقیں سے جائیں گے |
| مسافتِ شب میں ہم یہ ٹھان بیٹھے ہیں |
| بھلے جاں جاتی ہے تیرے قریں سے جائیں گے |
| تو اب ہمیں اِن رستوں پہ دیکھنا ساغر |
| اگر کبھی لوٹے تو یہیں سے جائیں گے |
معلومات