ہم اپنے دشمن کو بھی یوں سخت تر سزا دیتے ہیں |
جاں سے مارنا ہو جسے اسے نظروں سے گرا دیتے ہیں |
اب کون آئے گا یہاں اجڑے آنگن میں ہماری خاطر |
سو اب ہم خود ہی سرِ شام چراغوں کو بجھا دیتے ہیں |
کوئی رکھتا نہیں ہے یاد کسی کو زندگی بھر کے لئے |
لوگ یہاں اپنے بچپن کی محبت بھی بھلا دیتے ہیں |
یہ اور بات ہے وہ سنتا نہیں ہے میری صدائیں ورنہ |
ایک ہمی ہیں جو اسے ہر روز رو رو کے صدا دیتے ہیں |
تم نہ رکھو امیدِ وفا ان بے فیض لوگوں سے ساغر |
کچھ بے وفا ہیں جو اپنی نسلوں کا پتا دیتے ہیں |
معلومات