میں جس کی محبت کا کبھی تاج و نگیں تھا
جاتے ہوئے اس نے مجھے دیکھا ہی نہیں تھا
اُس موڑ پہ آ کے لُٹا ہے قافلہ میرا
جس موڑ پہ یارو مجھے منزل کا یقیں تھا
وہ مہرباں ہمدرد کسی اور کا تھا لیکن
افسوس! نہیں تھا تو فقط میرا نہیں تھا
انجان مسافت پہ نکلنے سے پہلے
یہ دل کسی کے قصرِ الفت کا مکیں تھا
میں کیسے بتاؤں قاتل کا نشاں یارو
وہ سامنے تو تھا لیکن پردہ نشیں تھا
تیری نگہِ الفت کو پانے کی خاطر
بوسہ لیا ہے میں نے ہر جھکتی جبیں کا
ہر روز بدل جاتے ہیں انداز تمہارے
ایسا تو مرے ساغر پہلے تو نہیں تھا

0
136