عرفانِ ذات سے بڑھ کر تمہیں سوچا ہے |
ہم نے اوقات سے بڑھ کر تمہیں سوچا ہے |
میں وہ راہب ہوں کسی ویران کلیسا کا |
جس نے تورات سے بڑھ کر تمہیں سوچا ہے |
جیسے ڈر جاتا ہے کالی شب سے کوئی |
اس کالی رات سے بڑھ کر تمہیں سوچا ہے |
وقتِ رخصت، دشتِ غربت اور فکرِ جاں |
سارے خدشات سے بڑھ کر تمہیں سوچا ہے |
مجھ کو درپیش تھے لاکھوں مسائل ذات مگر |
میں نے ہر بات سے بڑھ کر تمہیں سوچا ہے |
تو ہماری سوچ کے دائرے کو محدود نہ کر |
ہم نے برسات سے بڑھ کر تمہیں سوچا ہے |
گرچہ ساغر غمِ دوراں میں الجھے ہیں مگر |
اپنے حالات سے بڑھ کر تمہیں سوچا ہے |
معلومات