خامشی کے شہر میں، گفتگو نہ ہو سکی |
بات کی تو ہے مگر روبرو نہ ہو سکی |
وقت کے سفر میں ہم تھک کے رک گئے مگر |
منزلوں سے آگے کی جستجو نہ ہو سکی |
وہ نہ جان پائے میری اداسی کا سبب |
خامشی نے سب کہا، گفتگو نہ ہو سکی |
دھوپ میں بدن جلا، اور سائے گم رہے |
وصل کی گھڑی میں کچھ آرزو نہ ہو سکی |
چاہتوں کے دشت میں گم ہوئی ہیں منزلیں |
محو دل سے اک تری جستجو نہ ہو سکی |
لب پہ حرف آیا، دل میں بھی شور تھا بہت |
ہم نے سوچا بھی مگر گفتگو نہ ہو سکی |
جب ملی بصورتِ زہر ہی ملی ہمیں |
یہ شرابِ عشق بے رنگ و بو نہ ہو سکی |
معلومات