جس کو تم کہتے ہو اپنی انا کا مسئلہ
واللہ وہ ہی تو ہے میری بقا کا مسئلہ
واعظو رہنے دو میری سیہ کاری کو تم
ہے یہ میرا اور میرے خدا کا مسئلہ
مجھ کو ساری عمر در پیش تھے دو مسئلے
اک وفا کا مسئلہ، اک جفا کا مسئلہ
ہم نے جتنا عشق کرنا تھا سارا کر چکے
باقی تو اب رہ گیا ہے نبھا کا مسئلہ
دل میں جو کچھ تھا وہ سب کہہ دیا ہم نے مگر
اب ہے یہ خاموشیوں کی صدا کا مسئلہ
عشق میں سب کچھ لٹا کر بھی خالی ہی رہے
یہ بھی تو کچھ کم نہیں ہے، عطا کا مسئلہ
زخم جو تم نے دیے تھے وہ بھی پیارے لگے
یہ بھی تو تھا میرے دل کی رضا کا مسئلہ
ساغر اب تو عشق بھی سجدے میں ہے جا چکا
رہ گیا اب صرف دل کی دعا کا مسئلہ

194