اٹھ کے تیری محفل سے جاتے تو کہاں جاتے
مر نہ جاتے جو ہم اوروں کے آستاں جاتے
ہو اگر عطا ہم کو خاک تیرے قدموں کی
ہم لگا کے ماتھے پر کوئے دشمناں جاتے
تجھ کو یاد کرتے اکثر شبِ قیامت تک
ذکر تیرا ہی کرتے ہم جہاں جہاں جاتے
جب ہوئے مکیں رخصت گر پڑے مکاں سارے
چھوڑ کر کہاں آخر بستی کو مکاں جاتے
ڈھونڈ لیتے ہم تجھ کو کہکشاں کے جھرمٹ میں
کر کے ثبت تم بھی جو قدموں کے نشاں جاتے
یہ تو شکر ہے وعدے سے مکر گئے ورنہ
شورِ حشر ہوتا جو سوئے آسماں جاتے

0
54