محبت میں سہتے زیاں ہم رہے ہیں
تڑپتے رہے نیم جاں ہم رہے ہیں
لٹے ہیں گلوں سے گلوں کے چمن میں
گلوں کے ستم کا نشاں ہم رہے ہیں
چمن میں بہاروں کے جوبن کی خاطر
سبھی کچھ لٹا کر خزاں ہم رہے ہیں
سنا تھا کہ جیون دو پل کا سفر ہے
یہی سوچ کر لا مکاں ہم رہے ہیں
کبھی تو دکھوں کا مداوا بھی ہو گا
بڑی دیر تک بیکراں ہم رہے ہیں
زمانے کی نظروں میں مدہوش تھے جب
خبر ہے کسی کو؟ کہاں ہم رہے ہیں
وفاؤں کی شمعیں جلا ئیں تھیں ساغر
رہےپھر بھی رسوا جہاں ہم رہے ہیں

0
93