دیپ جلا کے بیٹھے ہیں
آس لگا کے بیٹھے ہیں
جانے وہ کب رونق بخشیں
گھر کو سجا کے بیٹھے ہیں
اک بے وفا کی خاطر ہم
اشک بہا کے بیٹھے ہیں
اب وہ ہی دکھتا ہے مجھ میں
خود کو مٹا کے بیٹھے ہیں
ہجر وصال کی ندیا میں
ارماں بہا کے بیٹھے ہیں
درد رگوں میں چبھتا ہے
خوں میں رچا کے بیٹھے ہیں
دنیا کی ظالم نظروں سے
خود کو چھپا کے بیٹھے ہیں

0
167