ہم ہمیشہ مفلسی کے عذاب سہتے ہیں
کیا بتائیں تجھ کو کیا کیا جناب سہتے ہیں
ہم سہ جائیں ہنس کے دکھ خشک سالی کے اگر
پھر عذاب پانی کے بے حساب سہتے ہیں

0
93