رندوں کا تقاضا ہے کہ مے خانے میں گھر ہو
ساقی کا یہ کہنا ہے کہ دستور نہیں یہ
آئے ہو جو موسیٰ کی طرح برق گرانے
ظالم مرا دل ہے جبلِ طور نہیں یہ
یہ مے کا اثر ہے کہ چمکتی ہیں جبینیں
اترا کسی محفل میں کبھی نور نہیں یہ
ساقی نے چھپا لی مے خواروں سے یہ کہہ کر
انگور کی بیٹی ہے میاں انگور نہیں یہ
دم آخری، لب پر فغاں ،سن کر مرے نالے
وہ اب بھی کہتے ہیں کہ رنجور نہیں یہ
ملتا ہے ترے مے کدے سے جو ہمیں ساغر
روکِ جنوں ہے مرحمِ کافور نہیں یہ

0
88