آشفتہ سری ہی سہی مجبور نہیں یہ
دیوانہ ہے تیرا ارے مزدور نہیں یہ
رندوں کا تقاضا ہے کہ مے خانے میں گھر ہو
ساقی کا یہ کہنا ہے کہ دستور نہیں یہ
آئے ہو جو موسیٰ کی طرح برق گرانے
ظالم مرا دل ہے جبلِ طور نہیں یہ
یہ مے کا اثر ہے کہ چمکتی ہیں جبینیں
اترا کسی محفل میں کبھی نور نہیں یہ
ساقی نے چھپا لی مے خواروں سے یہ کہہ کر
انگور کی بیٹی ہے میاں انگور نہیں یہ
دم آخری، لب پر فغاں ،سن کر مرے نالے
وہ اب بھی کہتے ہیں کہ رنجور نہیں یہ
جو زخم ہے دل کا وہی راحت کا سبب ہے
یہ زخم تو ہے لیکن ناسور نہیں یہ
سچ بولنے والوں کو جزا ملتی ہے جگ میں
افسوس تری نگری کا دستور نہیں یہ
ملتا ہے ترے مے کدے سے جو سکوں ساغر
روکِ جنوں ہے مرحمِ کافور نہیں یہ

0
137