میں اکثر بھول جاتا ہوں
کسی کو کچھ بتانا ہو
کسی کو غم سنانا ہو
جہاں آنسو چھپانے ہوں
وہیں آنسو بہاتا ہوں
میں اکثر بھول جاتا ہوں
میں اپنا دکھ چھپا کر بھی
ہنسی کی بات سنا کر بھی
دریدہ دامنی اپنی
رفو گر کی نگاہوں سے
چھپانا بھول جاتا ہوں
میں اکثر بھول جاتا ہوں
میرے گھر میں جو غربت ہو
فاقے ہوں بیماری ہو
میرے بچے پیاسے ہوں
چاہے جتنی لاچاری ہو
کسی مونس سہارے کو
بتانا بھول جاتا ہوں
میں اکثر بھول جاتا ہوں
کبھی ایسا بھی ہوتا ہے
کھڑی سر پر مصیبت ہو
اور ایسے میں مجھے مخلص
سہارے کی ضرورت ہو
مگر میں شرم کے مارے
کسی ساتھی پیارے کو
بتانا بھول جاتا ہوں
میں اکثر بھول جاتا ہوں
نا جانے کب تلک مجھ میں
یہ عادت بھول جانے کی
رہے گی اس طرح آخر
ہزاروں بار سوچا ہے
کہ اپنی اس لاچاری کو
ختم کر کے ہی دم لوں گا
مگر افسوس ہے ساغر
میں جتنا بھی جتن کر لوں
یہ عادت بھول جانے کی
غموں میں مسکرانے کی
روزانہ یاد کرتا ہوں
روزانہ بھول جاتا ہوں
میں اکثر بھول جاتا ہوں

476