| کر کے کڑا دل کو میرے یار آنا پڑے گا |
| رسمِ دنیا ہی سہی اک بار آنا پڑے گا |
| کوئی دیتا نہیں بن دیکھے دام کسی شے کا |
| تجھے بکنا ہے تو سرِ بازار آنا پڑے گا |
| اب تیرے دلاسوں سے کام نہیں چلنے والا |
| غم بانٹنے ہیں تو میرے یار آنا پڑے گا |
| ہے شوق تمہیں گر راہِ وفا میں کٹنے کا |
| پھر تم کو بر لبِ تختہ دار آنا پڑے گا |
| ہم سے انا کے مارے بھی محبت کر بیٹھے |
| لگتا ہے اب ہمیں زیرِ بار آنا پڑے گا |
| دل کے بہلانے سے بھی کٹتی نہیں شبِ غم |
| اک بار تمہیں سوئے بیمار آنا پڑے گا |
| سائے چھپے ہیں جو دن کی روشنی میں ساغر |
| دن کے ڈھلتے ہی پسِ دیوار آنا پڑے گا |
معلومات