مزاجِ موسم بھی یار سا ہے
مچلتی لُو کے غبار سا ہے
ستم ظریفی خزاں کی دیکھو
کہ جس کا چہرہ بہار سا ہے
تھکن فراق و ستم گری سے
رگوں میں اترا بخار سا ہے
خبر ہے وہ بے وفا ہے لیکن
ابھی بھی اک اعتبار سا ہے
ملے گا ہم سے تو ٹال دے گا
ہمارا ساجن عیار سا ہے
ہماری باتیں بجھی بجھی ہیں
تمھارا لہجہ بے زار سا ہے
یہ کرم تیرا ہے مجھ پہ ساغر
جو مجھ پہ چھایا خمار سا ہے

0
107