وہ جاتے جاتے صبر کی تلقین کر گیا
مجھ میں مری ہی لاش کی تدفین کر گیا
خود تو گیا سکون سے خوشیاں سمیٹ کر
ہستی اجاڑ کر مری غمگین کر گیا
ٹوٹا ہوا ہوں شاخ سے یہ دیکھ کر مجھے
طوفاں کی نذر پھر مرا گلچین کر گیا
میری ندائے موت تھی میری زبان پر
سن کر مری دعا کو وہ آمین کر گیا
مجھ سے اجالے لے گیا تاریک رات میں
اپنا جہاں وہ آپ ہی رنگین کر گیا
الزام بے وفائی کا ساغر پہ تھوپ کر
میری وفا کی بے وفا توہین کر گیا

0
6
242
محترم! ”گلچین“ کہنا درست نہیں ہے۔۔۔یا تو مرکب بنائیے یا ”گلچیں“ کہیے۔
اگر تنہا ”گلچین“ کی مثال آپ کے پاس ہے تو حوالہ عنایت فرما کر ہمارے بھی علم میں اضافہ کیجے۔ شکریہ!

اچھی ہے رواں بھی- اور مزہ بھی دے رہی ہے ایک آدھ جگہ کچھ آمین وغیرہ زبردستی کے لگ رہے ہیں مگر مجھے خیال انداز اچھا لگا
ایسے ہی لکھتے رہیں

جزاک اللہ

0
محمد جنید حسان تنہا صاحب

گلزار تمنا ہوں گلچین تماشا ہوں
صد نالہ اسدؔ بلبل در بند زباں دانی

تصور بہر تسکین تپیدن ہاے طفل دل
بباغ رنگ ہاے رفتہ گلچین تماشا ہے

جس نے برباد کیا ریشۂ چندیں شب تار
مستی ابر سے گلچین طرب ہے حسرت
مرزا اسد اللہ خان غالب
نہ مائل آرسی کا رہ سراپا درد ہوگا تو
نہ ہو گلچین باغ حسن ظالم زرد ہوگا تو
میر تقی میر

0
???
محترم Ar Saghar! آپ نے جتنے بھی حوالہ جات دیے ہیں سب میں ”گلچین“ مرکب میں استعمال ہوا ہے۔ پہلے اعتراض کو اچھی طرح سمجھ لیتے ہیں پھر جواب دیتے۔ ”گلچین“ علیحدہ جب بھی آئے گا ”گلچیں“ آئے گا۔ جب اسے مرکبات میں استعمال کریں گے تبھی ”گلچین“ ہو گا۔ علم میں اضافہ فرمائیے۔

0
فک اضافت کی گنجائش تھی لہذا استعمال کی

0