چھوڑ کے مجھ کو وہ جانا چاہتا ہے |
اس لئے کوئی بہانہ چاہتا ہے |
ہم جدا ہو جائیں ان سے زندگی بھر |
ایسے تو سارا زمانہ چاہتا ہے |
جانتا ہے بچھڑا تو مر جاؤں گا میں |
بس یہی تو آ زمانہ چاہتا ہے |
ایک برقی خط مجھے بھیجا تھا اس نے |
یہ لکھا مجھ کو بھلانا چاہتا ہے |
چھین کر کچھ خواب میری آنکھوں سے اب |
عمر بھر مجھ کو رلانا چاہتا ہے |
کر کے رسوا غیر کے آگے مجھے وہ |
ہر گھڑی ظالم ستانا چاہتا ہے |
اب وہ پہلوئے رقیبِ جاں میں ساغر |
مستقل اپنا ٹھکانہ چاہتا ہے |
معلومات