| دلوں سے محبت نکالے یہ نفرت |
| حسد، بغض و کینہ کو پالے یہ نفرت |
| سیاست پہ آئی کو ٹالے یہ نفرت |
| ہلے جب تو کرسی سنبھالے یہ نفرت |
| تبھی تو یہ نفرت کا نسخہ بھلا ہے |
| سیاسی دماغوں میں پھولا پھلا ہے |
| رعایا نے بنایا تھا جسے اپنا فقیر اعظم |
| وہی جمہوریت پر وار کر اس کا نکالے دم |
| توکل بھی تحمل بھی گزارش بھی سر آنکھوں پر |
| نہ بدلی راہِ زیست اس کی بدلتا بھی رہا موسم |
| وہ لاشوں پر سیاست کا کوئی موقع نہیں چھوڑے |
| لگائے جشن کا نعرہ جہاں پسرا ہو جب ماتم |
| کوئی قسمت کو کوسے اپنا کے مجھے |
| اپنا ہاتھ ملے کوئی ٹھکرا کے مجھے |
| چھوڑ سکوں نہ میں اس کو نہ بھول سکوں اس کو |
| قسمت نے چھوڑا دو راہے پہ لا کے مجھے |
| رات پہ حق اس کا ہے نیندوں پر تو نہیں |
| نیندوں نے اور کہیں پہنچایا ہے سلا کے مجھے |
| قدم بوش ہے کیوں تو بر گوش ہے کیوں |
| تو مقتول و مفلس پہ خاموش ہے کیوں |
| ہر اک ظلمِ ظالم سے مدہوش ہے کیوں |
| فرائض سے اپنے فراموش ہے کیوں |
| صحافی ہے کیا تو بتا اے لٹیرے |
| کرے رقص کیوں بن کے ناگن سپیرے |
| برسوں کے بعد مِرا یار ملا مشکل سے |
| آنکھیں نم ہو ہو کے اور گرد ہٹائی دل سے |
| وقت کے ساتھ بدلتے گئے سارے رشتے |
| ایک رشتہ نہیں بدلا دلِ نا قابل سے |
| کوششیں دونوں نے کی جان بچانے کے لئے |
| چیختا میں تو رہا اور وہ بھی ساحل سے |
| ہر اک محکمہ میں اسی کے اسامی |
| اسی کی ترقی جو داغے سلامی |
| کہیں جی حضوری کہیں بد کلامی |
| وہ طاقت کے دم پر کرائے غلامی |
| یہی تو کراتے ہیں اہلِ سیاست |
| نہ مانے کوئی تو وہ بھیجے حراست |
| صحافت نے کی ہے جو وعدہ خلافی |
| خبر جو دکھائے وہ ساری منافی |
| معیشت کی کون اب کرے گا تلافی |
| یہ پوچھا ہے سرکار سے کب صحافی |
| نکلنا سڑک پر بغاوت نہیں ہے |
| حقیقت چھپانا صحافت نہیں ہے |
| رفاقت رفیقوں سے اب بیر سی ہے |
| خصومت دلوں کو لگے خیر سی ہے |
| شناسا جو تھی چشم اب غیر سی ہے |
| نشیڑی کی وہ کھوپڑی دیر سی ہے |
| فضیحت کی زنجیر ہے اس گلے میں |
| سراپا دیا جو وطن کے بھلے میں |
| کہے خود کو دیشی، سبھی کو بدیشی |
| رکھے خوب دنگوں میں قاتل سے خویشی |
| نہ ہو کیوں عدالت میں مجرم کی پیشی |
| مزے میں ہیں غنڈے لٹیرے مویشی |
| حریفوں کو اپنے ہی من سے سزا دے |
| یہی راج کا راز ہے کیوں بتا دے |
| سیاست کی چھب ہو گئی کتنی گندی |
| رعایا سے پیاری اسے خود پسندی |
| کرے من کی مرضی ملے جب بلندی |
| کبھی نوٹ بندی کبھی ملک بندی |
| عوامی خطابوں میں یوں ذکر سب ہے |
| مگر ذاتِ مخصوص کی فکر اب ہے |
| دکھایا وہ سپنا نہ جس کی حقیقت |
| ریا کار و کاذب، بے دل، بے مروت |
| سنا کر نئی اک کہانی حکومت |
| تباہی پہ ڈالا نظامِ معیشت |
| ہے عقل و ضمائر پہ قابض مداری |
| وہ سادھو پہ ساحر پہ قابض مداری |
| نشانے پہ تہذیب گنگ و جمن کی |
| جہاں جان بستی ہے اہلِ وطن کی |
| بھرے آہ اب حسرتیں اپنے من کی |
| لٹی جا رہی زیب و زینت چمن کی |
| چنندہ گلوں کو مسل کر مٹائے |
| شگوفوں کو بس زہرِ نفرت پلائے |
| زبانوں میں ان کی ہے کیسی روانی |
| زباں کا اشارہ کہے سب کہانی |
| سنی ہے کبیرا کی مشہور وانی |
| کہیں برسے کمبل کہیں بھینگے پانی |
| چھپا ضابطہ میں ہے مخصوص مطلب |
| دبا ہے جو دل میں کھلے کیا کبھی لب |