Circle Image

Akhtar Hussain

@akhtar11a

نفرت بھری فضا میں محبت سے کام لے
بھٹکے ہوئے جوان ہیں ہمت سے کام لے
یہ وقت مشکلوں کے گزر جائیں گے یوں ہی
صبر و سکوں پھر اور شجاعت سے کام لے
حاکم پہ اعتماد کرے کون اعتبار
جب اپنے فیصلے میں سیاست سے کام لے

9
رتبہ بڑھا سماج میں شہرت بھی بڑھ گئی
لیکن اسی کے ساتھ عداوت بھی بڑھ گئی
انسان ایک چاہئے انساں کے درمیاں
کوئی ملا نہ اور مشقت بھی بڑھ گئی
ان کا رویہ دیکھ کے حیرت زدہ ہیں ہم
اس دوستی میں شدتِ نفرت بھی بڑھ گئی

0
9
دونوں جہاں ہیں غلامِ محمد
صل اللہ علیہ و سلم
ہر سو گونجے نامِ محمد
صل اللہ علیہ و سلم
فکرِ بشر ہے کون و مکاں تک
پہنچے نہ عقلِ انساں وہاں تک

1
15
باہر سے کچھ اور دکھے اندر میں کچھ اور
پل میں شعلہ شبنم پل بھر میں کچھ اور
تجھ کو چھوڑ کے جاؤں کدھر کو کس کے لئے
تیرے سوا بھی ہے کیا لعل و گہر میں کچھ اور

0
13
ہر فیصلہ سے مدعی کی اب تو جاں غمگین ہے
لیکن عدالت فیصلے سے خود کہاں غمگین ہے
آتی نہیں ہے نیند اب تاریک شب کی گود میں
دیوار و در فرش و زمیں عرش و مکاں غمگین ہے
اب دوستی تو رہ گئی اپنی غرض کے واسطے
دم بھرنے والا دوستی کا ہم زباں غمگین ہے

0
13
مجرم ہے گناہ گار بھی ہے
بے شرم ہے بے وقار بھی ہے
فرعون سے لے کے کبر کوئی
دنیا میں ذلیل و خوار بھی ہے
ظالم کو سزا پھر اور، اسی کا
چوری چھپے انتظار بھی ہے

0
2
31
جگر بنا ہے کباب اس کا
جسے جلائے شباب اس کا
چھپے چھپے سے رخ و جبیں ہیں
نظر کو رو کے نقاب اس کا
کچھ اختیار اب نہ نیند پر ہے
کبھی نہ آتا ہے خواب اس کا

14
ہمارے درمیاں ہی ایسے کچھ مکار بیٹھے ہیں
یہاں کا راز لینے کو چتر ہشیار بیٹھے ہیں
کئی عاقل کئی عالم لگے ہیں ان قطاروں میں
جہاں پہلے سے ہی جاہل سرِ دربار بیٹھے ہیں
گلی میں کون آئے کون جائے ہر گھڑی پہرہ
لگا کر ٹکٹکی در پر پسِ دیوار بیٹھے ہیں

0
15
چہرہِ گُل پنجوں میں دبوچ رہا ہے
مکر بھرا لفظ ذہن نوچ رہا ہے
اپنے برے حامیوں کے ساتھ میں بیٹھے
کیسے لٹے گلستاں یہ سوچ رہا ہے
خود کے بُنے جال میں چمن کو پھنسا کر
پچھلے زمانے کو ہی کھروچ رہا ہے

0
19
مِرے ساتھ رہ کے توُ تو استاد ہو گیا
تِرے ساتھ رہ کے میں تو برباد ہو گیا
ہم اک دوسرے کا حق ادا ہی نہ کر سکے
نبھانے سے پہلے فرض آزاد ہو گیا
ہمیشہ تِری ہی بات آگے چلی مِرے
جہاں بول میرا سنگِِ فریاد ہو گیا

0
16
سرکار بنائیں گے
آس یہ ہے میری
بگڑی وہ بنائیں گے
اک دن تو بلائیں گے
شاہِ امم اپنے
روضے پہ بلائیں گے

0
14
دیکھ ذرا اے بادِ بہاری
آج محبت کی ہے باری
چاروں طرف یہ شور مچا ہے
پیار ہی جیتا نفرت ہاری
آج بھرم یہ ٹوٹ گیا ہے
ایک اکیلا سب پر بھاری

0
17
ہاں یہاں چاہئے ہاں وہاں چاہئے
دہر سے تا ابد امنِ جاں چاہئے
ہم گنہ گاروں کی قبرِ تاریک میں
آپ کا چہرہِ ضو فشاں چاہئے
علم و عرفاں نہیں آج بھی قلب میں
فیض کا ایک دریا رواں چاہئے

0
1
29
مِرے دل میں جو عشقِ مصطفٰی ہے
رہے محفوظ یہ میری دعا ہے
خوشی ہو چاہے غم لیکن زباں پر
سدا صلِ علٰی صلِ علٰی ہے
خدا توفیقِ سجدہ چھین کر بھی
نہ روزی چھینتا ہے گر خفا ہے

0
28
پہلی ہے مِرے پاس اپیل اور نہیں ہے
کاغذ کے سوا کوئی دلیل اور نہیں ہے
انصاف کی خاطر تو چنا آپ کو ہم نے
کیا آپ کے مانند وکیل اور نہیں ہے
کیا کھیل وکالت میں چلے سب کو ہے معلوم
مجبور موکل ہے سبیل اور نہیں ہے

0
1
34
حق پہ کوئی بھی نثار اب نہیں ہوتا
خود سے وفا کا قرار اب نہیں ہوتا
بات کسی کی کبھی جو سہ نہ سکا تھا
وقت سے وہ در کنار اب نہیں ہوتا
جسم سے ہی بس لگاؤ، حسن سے رغبت
روح سے دیدارِ یار اب نہیں ہوتا

0
22
چھوٹے میٹھے دانے ہیں
جال وہیں پر تانے ہیں
پھر بھی ان کو خوف نہیں
یہ پنچھی انجانے ہیں
ان کی پیاس نہیں بجھتی
لب سے لگے پیمانے ہیں

0
28
تمہاری بے رخی اچھی سزا ہے
سزا میں بھی مزا بے انتہا ہے
خدا توفیقِ سجدہ چھین کر بھی
نہ روزی چھینتا ہے گر خفا ہے
نبھانا کیوں پڑے گا ساتھ اس کا
اگر اس کا چلن ہم سے گرا ہے

0
32
رحمتِ عالم جب آئے
دن باطل کے مرجھائے
آمدِ احمد کی خوشیاں
شیطاں نہیں سارے منائے
جآء الحق و زھق الباطل
حق آیا باطل تھرائے

0
23
تدبیر کر کے ہم تو تقدیر تک نہ پہنچے
اچھی لکھی ہوئی اس تحریر تک نہ پہنچے
دیکھے تھے خواب کتنے آنکھوں نے رات اپنی
وہ خواب صبح ہوتے تعبیر تک نہ پہنچے
جن راستوں پہ چل کر پاتے سراغِ منزل
وہ راستے خیالِ رہگیر تک نہ پہنچے

0
42
وعدے پہ وعدہ دلبر ہر بار کر گیا
دو بول میٹھے دل پر پھر مار کر گیا
جس پر کیا بھروسہ راہِ حیات میں
کچھ دور ساتھ چل کے انکار کر گیا
اپنی اذیتوں کا، کرتا بھی ذکر کیا
احساس کم تری کو ،خود دار کر گیا

0
28
دور کر اس برے وقت سنگین
تو بچا آج اہلِ فلسطین کو
ایک اللٰہ ہے ایک اپنا نبی
ایک ہی کلمہ ہے ایک قرآن بھی
ایک اسلام بھی ایک ہے قبلہ بھی
کاش ہوں ایک سارے مسلمان بھی

0
26
دِکھنے لگے ہیں اب تو آثار بادشاہی
جمہوریت ہے لیکن کردارِ بادشاہی
کوئی زباں نہ کھولے کوئی قلم نہ بولے
گھر گھر پہنچ رہا ہے اخبار بادشاہی
جمہوریت کے دم پر جس کو ملی ہے کرسی
قائم وہ کر رہا ہے معیار بادشاہی

0
37
دلوں سے محبت نکالے یہ نفرت
حسد، بغض و کینہ کو پالے یہ نفرت
سیاست پہ آئی کو ٹالے یہ نفرت
ہلے جب تو کرسی سنبھالے یہ نفرت
تبھی تو یہ نفرت کا نسخہ بھلا ہے
سیاسی دماغوں میں پھولا پھلا ہے

0
37
مجرم ہے، مگر اس کے سزاوار تمہیں ہو
ہر جرم کے بس مرکزِ کردار تمہیں ہو
ہر شام نئی اک حسیں چوپال سجا کر
معذور دماغوں کے خریدار تمہیں ہو
کب کیسے کہاں نفرتوں کی اینٹ لگے گی
اس کام کے تو ماہرِ معمار تمہیں ہو

1
45
کرے دنیا اِہاں آ کے تَ ہر گن گان اے دادا جی
کئی لا تو اہاں سب کے پُرا ارمان اے دادا جی
عُ رس لاگل اہاں آئل سبھے تہرے دوارے آج
کِہو اچڑا بچھاوے لا کِہو ہتھوا پسارے آج
سب آ کے دین دُکھ یا اور دکھی دھنوان اے دادا جی
یِہ دھانی رنگ کے چادر پہ چانی رنگ کے گُٹ وا

0
30
سب کو پتہ ہے سب سے ہے آگے نفرتی چہرہ ریس میں کون
کھلنے لگے لب دھیرے دھیرے دیس کا دشمن دیس میں کون

0
45
جو جتنا بَرا ہے وہ اتنا بڑا ہے
زمانہ اسی کے تو پیچھے کھڑا ہے
حق و عدل کی بات جس نے اٹھائی
وہی قید خانے کے اندر پڑا ہے
کوئی زندگی عیش و عشرت میں کاٹے
مِری زیست کا امتحاں کیوں کڑا ہے

41
مِرے حال پر کرم ہو شب و روز یا حبیبی
کرو دور میرے آقا غم و خوف و بد نصیبی
سنے کون بن تمہارے جسے حالِ غم سناؤں
نہ کوئی مِرا ہے اپنا نہ کوئی مِرا قریبی
کھِلے کتنوں کے مقدر جو ہوا کرم تمہارا
مگر اک مِرا مقدر لئے زخم ہے صلیبی

0
42
رعایا نے بنایا تھا جسے اپنا فقیر اعظم
وہی جمہوریت پر وار کر اس کا نکالے دم
توکل بھی تحمل بھی گزارش بھی سر آنکھوں پر
نہ بدلی راہِ زیست اس کی بدلتا بھی رہا موسم
وہ لاشوں پر سیاست کا کوئی موقع نہیں چھوڑے
لگائے جشن کا نعرہ جہاں پسرا ہو جب ماتم

0
79
مظلوموں پہ وہ ظلم و ستم اور کرے گا
جو چشم ابھی نم ہے اسے نم اور کرے گا
کھینچا ہے قدم پیچھے رہِ حق سے ہمیشہ
آئندہ پس و پیش قدم اور کرے گا
دیکھی نہیں جاتی ہے خوشی اس سے کسی کی
ایجاد کوئی وجہِ الم اور کرے گا

0
44
آج اس چمن کے برگ و گل کیا شاخ بھی برباد ہے
میری نظر سے دیکھئے تو باغباں ہی شاد ہے
کس سے کرے کوئی شکایت آج اپنے حال کی
خوش تھا جو پہلے آپ سے اب تو وہی نا شاد ہے

0
55
کوئی قسمت کو کوسے اپنا کے مجھے
اپنا ہاتھ ملے کوئی ٹھکرا کے مجھے
چھوڑ سکوں نہ میں اس کو نہ بھول سکوں اس کو
قسمت نے چھوڑا دو راہے پہ لا کے مجھے
رات پہ حق اس کا ہے نیندوں پر تو نہیں
نیندوں نے اور کہیں پہنچایا ہے سلا کے مجھے

0
69
میری آہوں میں اتنا جو اثر ہوتا
تو حسنِ مغرور نہ یوں بے خبر ہوتا
گھٹ گھٹ کے تو نہ جیتی آج امید اپنی
مل کے بچھڑنے کا احساس اگر ہوتا
رشتوں کے لئے دولت بھی تو ضروری ہے
ورنہ کون کسی کا لختِ جگر ہوتا

0
61
کون راہزن سب کا کون راہبر ہوگا
کچھ خبر نہیں پھر بھی طے یہ تو سفر ہوگا
آدمی میں ہی اک گن عام طور پر ہوگا
عقلِ جانور لیکن شکل سے بشر ہوگا
نقطہِ نظر بدلا دورِ حاضرہ کا بھی
ڈھوندتے ہیں سب زہرِ مار میں شکر ہوگا

0
50
باقی بہت کچھ، ہے ہونا میرے جانے کے بعد
ہنسنا یوں ہی تم نہ رونا میرے جانے کے بعد
کچھ تارے تم بھی گنو میری طرح آج رات
آرام سے خوب سونا میرے جانے کے بعد

0
53
کشتی نما تھیں آنکھیں جن میں ہمیں بٹھا کے
اس نے ہمیں ڈبویا گرداب میں لے جا کے
اس کو گماں کہ میری ہستی مٹا کے رکھ دی
لیکن مجھے بچا یا رحم و کرم خدا کے
سو بار بولنے سے اک جھوٹ سچ ہو جا ئے
ایسے بھرم سے بگڑے امن و اماں فضا کے

0
41
ہم اتنے ہی قریب ہیں اپنے نصیب کے
جتنا کوئی قریب ہو در سے غریب کے
ہم دور تھے تبھی تو نظر سے اتر گئے
مدعو کیا انہیں کو جو بھی تھے قریب کے
شیریں زباں پہ تلخ بیانی نہیں ہے آج
لگتے نہیں کچھ اچھے ارادے رقیب کے

35
مٹھی کھلی وہ بند ہتھیلی نہیں رہی
کھل ہی گئی وہ بات پہیلی نہیں رہی
اٹھتی رہی جہاں سے ہمیشہ صدائے امن
اب شہر میں کہیں وہ حویلی نہیں رہی
ساری فضا میں نفرتوں کا زہر بھر دیا
اس کی زبان اب تو اکیلی نہیں رہی

0
64
ورقِ دل پر اس نے لکھا ہے اتنی بار
کہ مٹاتے مٹاتے موجِ وقت گئی بھی ہار
اٹھتی تو ہیں لہریں ادھر ان کو خبر نہیں کیا
دلِ سنگ پہ نقش عبارت مجھ سے مانگے قرار
یہ گرد و غبار ہٹانے پھر آ تو موجِ وقت
کیوں تجھ سے نہیں دھلتے ماضی کے گرد و غبار

0
63
قدم بوش ہے کیوں تو بر گوش ہے کیوں
تو مقتول و مفلس پہ خاموش ہے کیوں
ہر اک ظلمِ ظالم سے مدہوش ہے کیوں
فرائض سے اپنے فراموش ہے کیوں
صحافی ہے کیا تو بتا اے لٹیرے
کرے رقص کیوں بن کے ناگن سپیرے

0
60
برسوں کے بعد مِرا یار ملا مشکل سے
آنکھیں نم ہو ہو کے اور گرد ہٹائی دل سے
وقت کے ساتھ بدلتے گئے سارے رشتے
ایک رشتہ نہیں بدلا دلِ نا قابل سے
کوششیں دونوں نے کی جان بچانے کے لئے
چیختا میں تو رہا اور وہ بھی ساحل سے

0
69
وہ آ نہ پائے زندگی میں زندگی بے جان ہے
اداس اداس ہیں یہ آنکھیں جان بھی بے جان ہے
یہ طوفاں کے تھپیڑے جانے اب کدھر لے جائیں گے
وہ دھندلے کنارے نظروں کو نظر کب آئیں گے
اب آگے کیسے بڑھ چلیں یہ ناؤ بھی بے جان ہے
لچکنے لگتی نرم شاخیں سن کے اس کی آہٹیں

0
79
سرخ لب پر کبھی مست چھلکا نشہ
وہ گلابی گلابی وہ ہلکا نشہ
نیم جاں کر دیا ایک پل کا نشہ
وہ نشہ کر نہ دے زیست کا خاتمہ
اب نہ رکھ واسطہ اب نہ کر رابطہ۔۔
شام کو رات کے وقت یا فجر میں

0
65
شام کی پر حسیں سرمئی سی فضا
اپسرا مینکا حور جیسی ادا
تھی معطر کبھی رہ گزر کی ہوا
آج انہیں منظروں کا ملا ہے صلہ
اب نہ رکھ واسطہ اب نہ کر رابطہ۔۔۔
ٹھوکریں دربدر کی میں کھاتا رہوں

0
77
اب مِرا کیا تجھے رشتہِ نو ملا
ہو شکایت تجھے اب نہ کوئی گلہ
ہو گیا اب ترا راستہ بھی جدا
اب نہ رکھ واسطہ اب نہ کر رابطہ
کی محبت کبھی تو شکایت کبھی
بے رخی نے تو ڈھائی قیامت کبھی

0
77
دنیا جو دینِ حق پر الزام دھر رہی ہے
اسلام کی یہ خوفِ وسعت سے مر رہی ہے
یا رب تو دل میں بھر دے محبوب کی محبت
یہ قوم آج کل تو حق سے مکر رہی ہے
تعظیمِ مصطفٰے اور خوفِ خدا بھلا کر
امت رسول کی یہ باطل سے ڈر رہی ہے

0
63
کسی بھی وقت ہجرت کا بہت سنگین ہوتا ہے
نئی دھرتی پہ پہلی بار دل مسکین ہوتا ہے
کھلی آنکھوں سے کتنی بار پی پھر بھی لگی ہے پیاس
اجی پانی سمندر کا یہ کیوں نمکین ہوتا ہے
دلِ نا کام کا کیا حال اب تجھ سے کہوں یارو
کبھی یہ خوش تو ہوتا ہے کبھی غمگین ہوتا ہے

0
76
سخت انتظار میں یوں ہی شب گزر گئی ہے
جلتا چراغ دے کر ہنستی سحر گئی ہے
کچھ بھی ملا نہ اب تک محنت کے ساتھ چل کے
امید ہی کے رستے ویسے عمر گئی ہے
حاصل ہوا کسے کیا معلوم ہے تجھے بھی
اپنے وطن کی دولت کس کو کدھر گئی ہے

0
56
سب کو پتہ ہے سب سے ہے آگے نفرتی چہرہ ریس میں کون
کھلنے لگے لب دھیرے دھیرے دیس کا دشمن دیس میں کون
پہلے بھلائی دیکھے وہ کس کی بعد میں شہری گانؤں کے لوگ
دے میٹھے سندیس وہ لیکن اُس میٹھے سندیس میں کون
غنڈے فسادی، خونی مجرم ہیں باہر بے قید و بے خوف
زندانوں میں حق کے لئے محبوس ہے فرضی کیس میں کون

74
تجھے کیوں نہ مجھ کو تو پختہ یقیں ہے
یہاں کی زمیں صرف تیری نہیں ہے
قدم جس جگہ پہلے بابا نے رکھا
وہی یہ زمیں ہاں یہی وہ زمیں ہے
ہو اخلاق و شفقت سے تجھ کو غرض کیا
تو صدیوں جہاں تھا ابھی بھی وہیں ہے

83
پِیر سے اپنے محبت گر ہے تو اس دہلیز پہ آتے رہیں
اور عقیدت کے پھولوں سے اپنے دل کو سجاتے رہیں
ذِکرِ ولی ہے کفارہ مومن کے اپنے گناہوں کا
ذِکرِ ولی کی بزم سجا کر اپنے گناہ مٹاتے رہیں
پھول ملے مالی کے یہاں اللٰہ ملے ولیوں کے پاس
چاہ اگر اللٰہ کی ہے تو ولیوں سے لگاؤ بڑھاتے رہیں

80
ہم جن کو یہاں رہبرِ انسان سمجھ بیٹھے
وہ لوگ ہمیں کو یہاں نادان سمجھ بیٹھے
اپنوں کے اشاروں پہ وہ اپنوں کو کیاہے دور
لوگ اپنے جو تھے ہم کو بے ایمان سمجھ بیٹھے
سب چھین لیا ہم سے یہاں حق جو ہمارا تھا
اس میں سے ذرا سا دے کے احسان سمجھ بیٹھے

0
93
غم سے لڑے ہر بشر، اس نئے ماحول میں
کیسے ہو سب کا گزر اس نئے ماحول میں
نفرتوں کے بیخ جو بوئے گئے ہر جگہ
بن گئے ہیں اب شجر، اس نئے ماحول میں
کیسے کوئی چل سکے سر پھروں کی بھیڑ میں
چاروں طرف شر کے سر، اس نئے ماحول میں

0
62
اپنا تو یہاں کوئی بھی نہیں اک یاد ہے تیری ساتھ مِرے
بھر بھر آہیں کٹتے ہیں اب اپنے تو سبھی دن رات مِرے
جب زخم نہ تھا تو ساتھ ترا تھا آج میں بے بس زخمی ہوں
دے کر کے تو نے زخم رسیلے بدلے ہیں حالات مِرے
ان کو وہ ملا جو کچھ بھی مانگا ہاتھ اٹھا کر دنیا سے
لوٹے ہیں فقط رسوائی لے کر اپنے دونوں ہاتھ مِرے

0
2
86
ایسی تھیں مشکلیں جو کوئی حل نہ کر سکا
تھی دھوپ سر پہ تیز وہ آنچل نہ کر سکا
پیاسی زمینِ دل نے گزارش تو کی مگر
کم تشنگی ارادہِ بادل نہ کر سکا
جذبات اشک بن خطِ مژگاں سے گر پڑے
پلکوں سے جذب اشک، یہ کاجل نہ کر سکا

0
46
کتنی ہے ابھی بھی حسیں تصویر تمہاری
میرے دل و جاں کے قریں تصویر تمہاری
پیغام تمہارا مجھے جب تک نہ ملا تھا
تھی خانہِ دل کی مکیں تصویر تمہاری
ممنون تمہارا ہوں مجھے ڈھونڈھ نکالا
مسرور کیا ہے یہیں تصویر تمہاری

0
81
اٹھتی نہیں تھی اِدھر نگاہ کسی کی
اب تو شرر بن کے دیکھے چاہ کسی کی
وعدہ ترا وعدہ تھا اے جھوٹے فریبی
تجھ سے ہوئی زندگی تباہ کسی کی
دیکھ کہیں جشن ہے تو ہے کہیں ماتم
دیکھ سسکتی ذرا وہ آہ کسی کی

0
48
آباد ہیں کچھ لوگ تو برباد بہت ہیں
کچھ شاد ہیں اس دور میں ناشاد بہت ہیں
ہر بھیس میں ہیں عاشقِ دیں تو مگر ان میں
موجود بھی سودائیِ الحاد بہت ہیں
تعلیم و عمل میں ہمیں سب سے رہے پیچھے
تعلیم و عمل میں کہاں استاد بہت ہیں

56
مزدور جب اٹھے تو بستر کرے شکایت
ٹوٹا ہوا بدن بھی رو کر کرے شکایت
ڈھوتے چلو گے کب تک تم بوجھ اس طرح سے
ننگے قدم کے چھالے پھٹ کر کرے شکایت
گل ہی کو گل نہ مانے گلشن کے اب محافظ
گلشن میں آج ہر گل اکثر کرے شکایتآ

0
35
آرزو اپنی کہ اس کو جی بھر کے دیکھ لوں
نرگسی آنکھوں میں کچھ تو اتر کے دیکھ لوں
چاہتا ہے دل کہ منظر سحر کے دیکھ لوں
مرنے سے قبل آج اک بار مر کے دیکھ لوں
گھومتے ہی گھومتے آ گیا مقتل میں جب
کچھ ارادے بھی تو قاتل نظر کے دیکھ لوں

79
جھوٹی قسمیں کھا کھا کر وعدہ کیا جھوٹا
لیکن وہ ترا تو پہلا رشتہ نہیں ٹوٹا
مکار مداری سب سچ بات چھپا کر کے
ہر جھوٹ کو سچ کہہ کر ہر شخص کو ہے لوٹا
ماحول و سماجوں میں وہ پیار کہاں اب ہے
اب دیش میٰں رہتے بھی یہ دیش کہیں چھُوٹا

0
73
ٹوٹے مرے سارے عہد و پیماں ترے چلتے
کہہ پاؤں نہ میں اس کو اب تو ہاں ترے چلتے
تقدیر کے ہیں پاؤں منزل سے بہت ہی دور
تدبیر کے رستے تو ہیں کوشاں ترے چلتے
آواز اٹھے گی دگنی ظلم تو کر جتنا
سینے میں اٹھا ہے سب کے طوفاں ترے چلتے

0
63
انکار ہے ان ہونٹوں پہ، اقرار دیا دھوکا
ان باتوں میں وہ بات کہاں یار دیا دھوکا
ایسا نہ کوئی راز مرا تھا جو رہا مجھ تک
اب جان کے سب رازوں کو دلدار دیا دھوکا
سب کچھ تو مرا لوٹ لیا چپ کے سے آ آ کر
دے کون تسلی مجھے ہر بار دیا دھوکا

0
48
تیرا ستم امیروں میں مشہور بھی نہیں
لیکن عوام کی نگہ سے دور بھی نہیں
لے گا ترا حساب کسی دن یہیں کوئی
شاید ترا یہ ظلم ابھی بھر پور بھی نہیں
آئے عدم سے ہم لئے میثاقِ زندگی
آزاد ایک دم نہیں، محصور بھی نہیں

0
91
بھلے تو ہو کب خراب ہو تم مِری نظر میں
کوئی غزل کی کتاب ہو تم مِری نظر میں
گلِ سمن تو کوئی کہے تم کو رات رانی
ہر ایک گل کا شباب ہو تم مِری نظر میں
حسین خوابوں کے ٹوٹنے پر نہیں ملے جو
اسی طرح کا تو خواب ہو تم مِری نظر میں

0
51
لگتا رہا دکھوں کا ہر تیر ہر قدم پر
کرتا رہا علاج و تدبیر ہر قدم پر
ایمان اور عمل پر ہم گام زن جو ہوتے
ہوتی نہ ذلتوں کی زنجیر ہر قدم پر
ان کو ملی ہے عزت نا حق پہ جو سدا ہے
حق پر چلا تو پائی تحقیر ہر قدم پر

0
62
کرے کام کوئی اور لیکن نام کسی اور کا
الزام کسی پہ لگے الزام کسی اور کا
غیروں کے زیرِ سایہ شرطِ معافی پر
اپنوں کے خوں سے سینچا وہ نظام کسی اور کا
اتنا ہے خوف اسے انصاف پسندوں سے
کہ وہ نام جپے یاں پہ صبح و شام کسی اور کا

0
52
ہر اک محکمہ میں اسی کے اسامی
اسی کی ترقی جو داغے سلامی
کہیں جی حضوری کہیں بد کلامی
وہ طاقت کے دم پر کرائے غلامی
یہی تو کراتے ہیں اہلِ سیاست
نہ مانے کوئی تو وہ بھیجے حراست

0
76
صحافت نے کی ہے جو وعدہ خلافی
خبر جو دکھائے وہ ساری منافی
معیشت کی کون اب کرے گا تلافی
یہ پوچھا ہے سرکار سے کب صحافی
نکلنا سڑک پر بغاوت نہیں ہے
حقیقت چھپانا صحافت نہیں ہے

0
84
عشقِ رسول خانہِ دل میں بسا کے تم رکھو
ظلمتِ دہر میں یہی شمع جلا کے تم رکھو
چھوڑیں گے ہم نہ دامنِ مصطفٰے کو یہاں وہاں
عزم و ارادہ ذہن میں سخت بنا کے تم رکھو
ہو نہ حضور بِن تو ایمان بَدَرجہِ اتم
جاں سے عزیز تر انہیں پہلے بنا کے تم رکھو

0
87
ٹھنڈی ٹھنڈی بادِ صبا جو صبح جگانے آتی ہے
لیکن میٹھی نیند میں ڈوبے کچھ کو سلانے آتی ہے
بیٹھی بلبل تھک جائے جب ان پیڑوں کی چھاؤں میں
تب دل بہلانے کنواں پر پانی کے بہانے آتی ہے
جسم و تن تو جل ہی گئے گرم ہوا کے جھونکوں سے
پھر بھی چڑھتی دھوپ دو پہری دل کو جلانے آتی ہے

0
54
نہ جفا ہی کام آئی نہ سزا ہی کام آئی
تجھے ہار تھک کے آخر یہ وفا ہی کام آئی
سرِ بزم اس نے میری یہ جو آبرو اچھالی
تو وہیں مری خموشی یہ حیا ہی کام آئی
چلے راہ سب سے مل کر کرے گھات ساتھ مل کر
اسے ہر قدم پہ اس کی تو ریا ہی کام آئی

0
48
عمل اگر نہ ہو تو صرف خوش خیال کیا کرے
دلی سکون کے لئے ذخیرہ مال کیا کرے
یہ مغربی چلن کہ نیم برہنہ چلے پھرے
کھلے دماغوں پر اثر کوئی زوال کیا کرے
سمجھ سکے نہ جب کوئی کبھی اشارے لمحوں کے
تو ایسے لوگوں پر، مہینہ اور سال کیا کرے

0
62
اک دو، نہیں ہے سارا گلشن تمہارے ساتھ
کچھ منتخب ہیں اہلِ گلخن تمہارے ساتھ
پرواز کی بلندی نے کی ہے قبض روح
پرواز ہو نہ اور بھی دھڑکن تمہارے ساتھ
شاگرد کتنے جھوٹے لے کر پَوِتر نام
برباد کر لئے ہیں جیون تمہارے ساتھ

0
58
دیوانگی میں ہی ، میں نے کیا کیا نہ کھو دیا
ہنستا رہا غموں پہ کبھی پل میں رو دیا
اڑ کر کہاں میں جاؤں نشیمن سے اس گھڑی
امید کے پروں کو کسی نے بھگو دیا
درد و الم فراق ، جو کچھ تجھ سے ہے ملا
دل میں سمو لیا، تو نے سامان جو دیا

0
52
اے دلِ نا کام تو ہل، اب یہاں سے
دور کیا تیری ہے منزل، اب یہاں سے
پاس تیرے صرف عزمِ پختہ ہی ہے
راہ چل، جتنی ہو مشکل، اب یہاں سے
اب مقدر سے کریں کیا ہم شکایت
لے چلیں جو کچھ ہے حاصل، اب یہاں سے

0
62
وہ ہنستے ہیں اوروں کے سنگ، پھر اپنی ہنسی پر روتے ہیں
ترکِ تعلق کر کے ہم سے اس آن و گھڑی پر روتے ہیں
وقت بھلا دے کس کا ساتھ یہ کاتبِ قسمت کی مرضی
لوگ تو سب فی الحال یہاں اپنی مرضی پر روتے ہیں
دوست و دشمن اپنے پرائے سب تو ہیں موجود یہاں
شام و سحر ہو کہ دن راتیں اک تیری کمی پر روتے ہیں

0
78
شام نے زلفیں اپنی سنواری تو کیا
رات اپنی کہیں اور گزاری تو کیا
کیا ہے لینا کسی کو گئی راتوں سے
اب کوئی شب نہیں بھی کنواری تو کیا
چاندنی تو نمودار ہو کے رہی
لاکھ تھی ابر کی پہرےداری تو کیا

0
86
ہنسنے لگی ہے دنیا اپنی جو داستاں پر
لانا کبھی نہ لفظِ شکوہ کوئی زباں پر
ہو گر زبان پیاسی تو اشکِ گرم پی لے
بھاتا نہ اب کسی کو آنا ترا کنواں پر
رستے میں میرے کانٹے ڈالیں نہ لوگ تیرے
ان کی چبھن سے کیا ہو موجود تو جہاں پر

0
43
مری قسمت پہ خوش یہ سنسار پھر ہے
پڑا مجھ پر الم جو اک بار پھر ہے
نبھاؤں کیسے میں بد حالی میں رشتے
تہی دستی سے حالت نا چار پھر ہے
لے سکتی ہے جاں اس کی شیریں زبانی
چلن اس کا وہی اور گفتار پھر ہے

0
81
غیروں سے خوب میل ترا مجھ سے عار ہے
خیر اب مرا نہ تجھ پہ کوئی اختیار ہے
غنچے کھلا کے دل کے انہیں پھر مسل گئے
ہر غنچہ ایک بار پھر اب اشک بار ہے
اقرار تھا کبھی لبوں پر ساتھ دینے کا
آج ان لبوں پہ لفظِ نہیں بار بار ہے

0
70
مسیحا میں سمجھوں اسے یا لٹیرا
مجھے ہر طرح سے اسی نے ہے گھیرا
بھٹکتا رہا جن چراغوں کے پیچھے
ملا ان چراغوں سے ہر شب اندھیرا
مجھے چھوڑ کر تجھ کو جانا اگر تھا
تو پھر کیوں بسایا یہ گھر تو نے میرا

0
85
گزشتہ سے آگے۔۔۔۔۔
عید کیسے مَنے ، آج کیسے مَنے
کیا ہے کاجل یہ سرمہ ہے کیا ہے حنا
چشم سونی ہے سونے کفِ دست و پا
روز و شب کی شفق لاڈلی سے خفا
اشک جاری کہے لاڈلی بھی تو کیا

0
60
عید کیسے منے عید کیسے منے
ہم غریبوں کے گھر عید کیسے منے
دودھ و شکر نہیں کاجو خر ما نہیں
آج پیسے بنا تن پہ کپڑا نہیں
چاند کی شب حسیں صبح اس کی حسیں
مال و دولت جسے عید اس کی حسیں

0
81
کس کو سنائیں اب حالِ زندگی کو ہم
لے کر کہاں یہ جائیں اپنی خودی کو ہم
کچھ یاد ہی نہیں کیا اپنے لئے کیا
ترجیح دیتے آئے ان کی خوشی کو ہم
ایک آن کے لئے آئی تھی جو روشنی
برسوں سے ڈھونڈھتے ہیں اس روشنی کو ہم

0
66
دلگیر خامشی لئے ہے رات کس طرح
بھیجے اگر کوئی تو پیامات کس طرح
معلوم ہے مجھے وہ تکبر میں علم کے
بھرتے ہیں جاہلوں میں خرافات کس طرح
اسلام کے وقار سے کب ان کو پیار ہے
نیلام خود کو کرتے ہیں دن رات کس طرح

0
71
دے معافی ذرا دیکھ رحمان کو
کس طرح بخشتا ہے وہ نادان کو
دل دکھانا مِرا تو ارادہ نہ تھا
بخش دو دل سے مجھ جیسے انسان کو
میں نہ بھولا کبھی اور نہ بھولوں کبھی
آج تک اس ملے تیرے احسان کو

0
92
ہجر کی رات میں روتی ہیں کسی کی آنکھیں
اور کہیں چین سے سوتی ہیں کسی کی آنکھیں
لعل و گوہر ہو کہ یاقوت مگر ان سب کو
مات دے دے جو وہ موتی ہیں کسی کی آنکھیں
راہ سونی ہو اگر رات اندھیری تنہا
ایسے حالات میں جوتی ہیں کسی کی آنکھیں

0
135
ملی ناکامیاں اس جگہ سے بھی زیادہ
جہاں چکر لگا تھا گدا سے بھی زیادہ
مِری حالت پہ ان بد دعاؤں کا اثر ہے
جنہیں اپنوں نے دی ہے دعا سے بھی زیادہ
در و دیوار وہ اب ترستے روشنی کو
جہاں پل پل جلا میں دیا سے بھی زیادہ

0
84
رفاقت رفیقوں سے اب بیر سی ہے
خصومت دلوں کو لگے خیر سی ہے
شناسا جو تھی چشم اب غیر سی ہے
نشیڑی کی وہ کھوپڑی دیر سی ہے
فضیحت کی زنجیر ہے اس گلے میں
سراپا دیا جو وطن کے بھلے میں

0
64
کہے خود کو دیشی، سبھی کو بدیشی
رکھے خوب دنگوں میں قاتل سے خویشی
نہ ہو کیوں عدالت میں مجرم کی پیشی
مزے میں ہیں غنڈے لٹیرے مویشی
حریفوں کو اپنے ہی من سے سزا دے
یہی راج کا راز ہے کیوں بتا دے

0
59
سیاست کی چھب ہو گئی کتنی گندی
رعایا سے پیاری اسے خود پسندی
کرے من کی مرضی ملے جب بلندی
کبھی نوٹ بندی کبھی ملک بندی
عوامی خطابوں میں یوں ذکر سب ہے
مگر ذاتِ مخصوص کی فکر اب ہے

0
81
میرے دشمن مِرے مرنے کی دعا کرتے ہیں
اور ہم ٹھہرے کہ ان ہی پہ مرا کرتے ہیں
ساتھ رہتے ہیں اجالوں میں جو سایہ بن کے
جب اندھیرا ہو وہی خود کو جدا کرتے ہیں
اب بھروسہ کریں کس پر دکھے اپنا کوئی
مطلبی بن کے سبھی سب سے ملا کرتے ہیں

0
126
سبھی بے مال ہو جائیں وہ مالا مال ہو جائے
یہ ان کی سازشیں ملک یہ کنگال ہو جائے
لٹے مظلوم فریاد لے کر کس جگہ جائیں
حکومت کے لئے جب عدالت ڈھال ہو جائے
جدھر دیکھو اُدھر لشکرِ باطل کھڑا ہے
خبر کیا کب کوئی شخص زیرِ نال ہو جائے

48
کیا پرکھوں سے محبت ہے کہ بغاوت ہے یا کچھ اور ہے
ان سے ملی جو امانت ہے کہ ذلالت ہے یا کچھ اور ہے
اپنے نہ بھائے ان کو کبھی کیوں خون بہائے اپنوں کا
کیا یہ زمانہِ دشرتھ ہے مہابھارت ہے یا کچھ اور ہے
ملک ہے سارا دھوکے میں کاغذ پر جو دکھے دھرتی پہ نہیں
اب کیا صرف سیاست ہے کہ جہالت ہے یا کچھ اور ہے

0
79
دکھایا وہ سپنا نہ جس کی حقیقت
ریا کار و کاذب، بے دل، بے مروت
سنا کر نئی اک کہانی حکومت
تباہی پہ ڈالا نظامِ معیشت
ہے عقل و ضمائر پہ قابض مداری
وہ سادھو پہ ساحر پہ قابض مداری

0
70
نشانے پہ تہذیب گنگ و جمن کی
جہاں جان بستی ہے اہلِ وطن کی
بھرے آہ اب حسرتیں اپنے من کی
لٹی جا رہی زیب و زینت چمن کی
چنندہ گلوں کو مسل کر مٹائے
شگوفوں کو بس زہرِ نفرت پلائے

0
78
دیکھ کیا مجبور ہوں نا چار ہوں
ہاں مگر قسمت سے میں نادار ہوں
ہر کوئی مصروف ہے اپنے لئے
اوروں کی خاطر میں ہی تیار ہوں
ڈھونڈھتا ہوں ہر بہانہ رات و دن
کہنے کو تو میں بہت خوددار ہوں

0
44
سوچ سوچ کر دلِ نادان بے قرار ہوا
ایک بار ہی نہیں ایسا تو بار بار ہو
سوچتا ہے خانۂ گِل رنگِ ابر دیکھنے پر
کب غریبوں کے لئے موسم یہ خوشگوار ہوا
باغ باغ جھوم اٹھے آمدِ بہار سے تو
دستِ جبر کا رخِ گل پھر یہاں شکار ہوا

0
58
کس وقت اس کو چھونے کی خواہش نہیں ہوئی
نظریں اٹھیں تو ہاتھوں میں جنبش نہیں ہوئی
سب پوجتے رہے جسے دن رات ہر گھڑی
اس کی کبھی تو مجھ سے پرستش نہیں ہوئی
کرتا ہے ظلم چہرہِ حق دار دیکھ کر
حق داروں پر کبھی تو نوازش نہیں ہوئی

0
71
درِ مرشد پہ آئیں ہم عقیدت کا تقاضا ہے
لٹائیں قیمتی ہر وقت الفت کا تقاضا ہے
منور دل کو کر اپنے مزین روح کو اِم شب
تعلق باطنی مرشد سے قربت کا تقاضا ہے
فضا پر نور ہے ہر سو طفیلِ بو الُحسن چشتی
سجائیں کیوں نہ ہم محفل مسرت کا تقاضا ہے

0
476
ہنسنا ترا یہ خوب ہے رونا مِرا نصیب
پلکوں پہ موتیوں کو سجونا مِرا نصیب
میری نظر میں تو ہی تو ہے ہر گھڑی مگر
میرا تری نظر میں نہ ہونا مِرا نصیب
نا کامیوں کے بیچ تو گم ہے مِری حیات
شمعِ امید صرف ہے ڈھونا مِرا نصیب

0
78
دلِ غم زدہ پہ ہو اک نظر شب و روز یہ بے قرار ہے
ہے پتہ سبھی خبر آپ کو یہ مِری جو حالتِ زار ہے
بہ طفیلِ نورِ محمدی ہے وجود کون و مکان کا
یہ زمین و عرش ہر ایک شے اسی سے تو پائی قرار ہے
کوئی لاکھ کر لے عبادتیں دے زباں سے بھی وہ شہادتیں
ہاں جسے نبی سے وفا نہیں تو عمل تمام بے کار ہے

0
184
کروں زباں سے بیان کیا کیا تمہیں مِری کیا خبر نہیں ہے
کرے جو حاجت روائی میری یہی ہے در اور در نہیں ہے
سنو گزارش تڑپتے دل کی کلی کھلے کب جھلستے دل کی
کرم کی بارش ذرا ہو دل پر یہ دل تو ہے خشک تر نہیں ہے
بھنور میں کشتی مِری پڑی ہے نکالو مجھ کو کٹھن گھڑی ہے
مِرے اے مرشد تمہارے آگے بھنور یہ کچھ بھی بھنور نہیں ہے

70
میرا ہی انتظار تری بے رخی کو ہے
پھر کیوں مجھی سے عار تری بے رخی کو ہے
چاہے سنوار دے کہ مٹا دے تو زندگی
یہ سب تو اختیار تری بے رخی کو ہے
جب تک ستا نہ لے وہ مجھے دن میں ایک بار
تب تک کہاں قرار تری بے رخی کو ہے

0
82
زبانوں میں ان کی ہے کیسی روانی
زباں کا اشارہ کہے سب کہانی
سنی ہے کبیرا کی مشہور وانی
کہیں برسے کمبل کہیں بھینگے پانی
چھپا ضابطہ میں ہے مخصوص مطلب
دبا ہے جو دل میں کھلے کیا کبھی لب

0
69
کٹے وقت وقتِ قضا کی طرح
ہو لطف و کرم جب ریا کی طرح
شب و روز شام و سحر اب لگے
وہ نزدیکیاں اک بلا کی طرح
ملی دوستوں سے دعائیں بہت
لگی ہر دعا کیا دعا کی طرح

0
51
مسیحا ہے قاتل کہ رہبر لٹیرا
یہی کش مکش نے کڑوروں کو گھیرا
سمٹنے لگیں سات رنگوں کی کرنیں
بڑھا جب تعصب سے یہ گھپ اندھیرا
فضاؤں میں گھلتے رہے زہرِ اژدر
بجاتا رہا بین نقلی سپیرا

0
72
یہ رحیمن کبیرا یہ رسخان میں ہے
یہ بدھا اشوکا کی پہچان میں ہے
یہ عیسائی ہندو مسلمان میں ہے
محبت وطن کی ہر اک جان میں ہے

0
64
سزا مجھ کو ملی ہے آج ماضی کے گناہوں کی
اکیلا چھانتا ہوں خاک اِن سنسان راہوں کی
دیا تھا حکم طوفاں نے اسے اس پار جانے کا
بھنور میں ہی ڈُبا ڈالی بھری کشتی پناہوں کی
اب ان کی مہر بانی اور بھی جھیلی نہیں جاتی
چھپی ہے مہر بانی میں سلگتی آگ شاہوں کی

0
61
گاؤں کی ہر گلیوں میں مرا چرچہ صبح و شام رہا
مل نہ سکا وہ آج تلک میں جس کے لئے بد نام رہا
کیسے کروں ساقی سے شکایت اس کی نظر تو اٹھی ہی نہیں
پینے کو لب تو ترستے رہے آنکھوں میں اس کی جام رہا
ساون کی بھری ہر یالی میں دھانی چنر کا لہرانا
اس کے اشارے سمجھنے میں پاگل بادل تو ناکام رہا

0
63
غمگین کیوں ہے شوخ نظر اب تو کچھ کہو
تیرا بھی کیا جلا حسیں گھر اب تو کچھ کہو
کیا حال ہے ترا مرے اس سخت حال میں
اپنی تو دی نہ خیر و خبر اب تو کچھ کہو
مل جائے گی کبھی تو وہ منزل تمہیں کہیں
جس کی تلاش مجھ کو مگر اب تو کچھ کہو

0
119
کیا یہاں چاہیے کیا وہاں چاہیے
ہاں کہیں بھی مجھے تیری ہاں چاہیے
دل ہے سجدوں سے خالی ریا کار کا
بس زمیں سے جبیں کو نشاں چاہیے
گلستاں کی حفاظت جو دل سے کرے
سب کو ویسا یہاں باغباں چاہیے

138
نہ طاقت نہ دولت بھناؤں میں کیا
نہیں کچھ مِرے پاس لاؤں میں کیا
امید و توکل وہ صبرِ حسین
یہ اپنے خزانے لٹاؤں میں کیا
یہ نیندیں وہ آنکھیں خفا ہیں مگر
کوئی ذہن میں ہے سلاؤں میں کیا

0
69
غزل آپ کی ہے کہانی مِری
سنو کچھ کہانی زبانی مِری
بہت کش مکش میں یہ قسمت رہی
کٹی خلوتوں میں جوانی مِری
کئی دوست بن کے بچھڑ بھی گئے
ہے تنہا ابھی زندگانی مِری

0
54
ہم لوگ ایک اور خیالات الگ الگ
کرتے ہیں محفلوں میں جلی بات الگ الگ
ہر آدمی کے سینے میں ہے قلب ایک ہے
مخفی اسی میں سب کے ہیں جذبات الگ الگ
دیتے رہے خوشی سے اسے ہاتھ بے دھڑک
کٹتے رہے ہمارے وہی ہاتھ الگ الگ

0
68
دشمن بہت ہے خوش کہ مرے سر پہ چھت نہیں
پھر بھی خوشی سے ان کو ملے عافیت نہیں
بھاتے نہ خاندان کے اپنے اسے یہاں
تعلیم بہترین ملی تربیت نہیں
جرات کہاں کہ پوچھ سکوں خیریت تری
تو ہے جہاں تو کیسے وہاں خیریت نہیں

0
66
گدائی نہیں ہے ہماری گزارش
سنی جائے گی کب غریبوں کی نالش
ن فی میں خفی ہیں کئی رازِ مثبت
بدلنے لگی کروٹیں اپنی کاوش
وراثت پہ حق صرف اس کا نہیں ہے
کرے گا کہاں تک وہ سازش پہ سازش

0
51
نہ ہے اس کے جیسا ہزاروں میں کوئی
کہاں گل ہے ویسا بہاروں میں کوئی
بسائے ہوئے ان گنت داغ دل میں
ہنسے چاند جیسے ستاروں میں کوئی
یہ فطرت کہ اپنا وہ سمجھے سبھی کو
نہ سمجھا اسے اتنے یاروں میں کوئی

0
55
کر نہ سکے ہم بات وہ پوری، بات بھلائے اب نہ بنے
تب تھے کہاں حالات برے، حالات بھلائے اب نہ بنے
لمس ہوا نظروں کا جب تو شرم کے بادل اور جھکے
ماتھے سے پھر برسات ہوئی، برسات بھلائے اب نہ بنے
جشن میں لوگوں کے درمیاں تو جیسے تاروں کے بیچ ہو چاند
تھی وہ تری بارات سجی، بارات بھلائے اب نہ بنے

0
49
سب کا دماغ پہلے تو اس کا قدم چلے
سن کر سبھی وہ مشوروں کو ان پہ کم چلے
اعلان کر دے رات میں کب کیا کسے پتہ
لمبی زباں پہ ویسے تو لمبی قسم چلے
رہتے ہیں دور دور ہمیشہ اسی سے لوگ
تلخی بھری زبان ہمیشہ جو خم چلے

0
73
جینا تو ہے مر کے یہاں یہ راز سبھی کو کیا معلوم
اپنے پرائے ہونے لگے سب خاص کسی کو کیا معلوم
نکلے ہم جنت سے تیری یہ تو تری ہی مرضی تھی
ترسیں گے ہم آ کے یہاں ہر ایک خوشی کو کیا معلوم
حسنِ عمل کو دیکھ ترے کرتے ہیں رشک فرشتے بھی
مٹی کے پتلے کی قیمت حور و پری کو کیا معلوم

0
78
بھلی فکرِ انساں کدھر کھو گئی ہے
تمیز و ادب اور ڈر کھو گئی ہے
شبِ تیرگی میں ہزاروں ہیں جگنو
اجالوں میں ان کے ڈگر کھو گئی ہے
ستارے فلک سے لبھاتے ہیں مجھ کو
انہیں میں ضیائے نظر کھو گئی ہیں

0
101
عشق ہے جسے یہاں آمنہ کے لال سے
رب اسے بچائے گا حشر میں وبال سے
اتباعِ مصطفٰے جس کو جاں سے ہے عزیز
پائے گا اجر تبھی ربِ ذو الَجلال سے
کائنات کا سبب ایک نورِ حق ہے بس
جو چمک رہا ابھی تک کروڑوں سال سے

0
148
کوئی نہ روزگار کوئی پوچھتا نہیں
ویسے بہت ہیں یار کوئی پوچھتا نہیں
ہاں دولت و شعور و ہنر اور زمیں کہاں
بس خامیاں ہیں چار کوئی پوچھتا نہیں
آنکھوں میں گرم ذرے بیابانِ ہجر کے
سوکھے لب و عذار کوئی پوچھتا نہیں

0
60