ایسی تھیں مشکلیں جو کوئی حل نہ کر سکا |
تھی دھوپ سر پہ تیز وہ آنچل نہ کر سکا |
پیاسی زمینِ دل نے گزارش تو کی مگر |
کم تشنگی ارادہِ بادل نہ کر سکا |
جذبات اشک بن خطِ مژگاں سے گر پڑے |
پلکوں سے جذب اشک، یہ کاجل نہ کر سکا |
آسان کر دیا کرے سب کام اوروں کا |
اپنی تو الجھنوں کو کبھی حل نہ کر سکا |
اپنی خوشی نہیں مگر اپنوں ہی کے لئے |
کرنا پڑا ہے آج جسے کل نہ کر سکا |
خدمت کبھی نہ کی، میں جو اک بد نصیب ہوں |
قربان والدین پہ اک پل نہ کر سکا |
اتنا ہے خوفِ جان کہ سب قتل دیکھ کر |
اقرار کوئی شاہدِ مقتل نہ کر سکا |
معلومات