ٹوٹے مرے سارے عہد و پیماں ترے چلتے
کہہ پاؤں نہ میں اس کو اب تو ہاں ترے چلتے
تقدیر کے ہیں پاؤں منزل سے بہت ہی دور
تدبیر کے رستے تو ہیں کوشاں ترے چلتے
آواز اٹھے گی دگنی ظلم تو کر جتنا
سینے میں اٹھا ہے سب کے طوفاں ترے چلتے
اے دولتِ دنیا اپنی شکل دکھا اصلی
حیوان بنے ہیں کتنے انساں ترے چلتے
وحشت زدہ ہیں شہری سہمے ہوئے دیہاتی
شمشان ہوا روشن گھر ویراں ترے چلتے
بے شرم تو اس مہنگائی کا ہے سبب بے شک
بنیاد ترقی کی ہے لرزاں ترے چلتے
یارانِ سیاست تو بیدار ہوگا کب تک
اب جاگ وطن کا کب تک نقصاں ترے چلتے

0
63