| چہرہِ گُل پنجوں میں دبوچ رہا ہے |
| جھوٹ بھرا لفظ ذہن نوچ رہا ہے |
| اپنے برے حامیوں کے ساتھ میں بیٹھے |
| کیسے لٹے گلستاں یہ سوچ رہا ہے |
| خود کے بُنے جال میں چمن کو پھنسا کر |
| پچھلے زمانے کو ہی کھروچ رہا ہے |
| ان پہ کوئی کیسے اعتبار کرے گا |
| جن کے ہر اک بات ہی میں کھوچ رہا ہے |
| فکرِ فلاح اوروں کی ہو اپنے علاوہ |
| اب کے دماغوں میں یہ نہ لوچ رہا ہے |
معلومات