ملی ناکامیاں اس جگہ سے بھی زیادہ |
جہاں چکر لگا تھا گدا سے بھی زیادہ |
مِری حالت پہ ان بد دعاؤں کا اثر ہے |
جنہیں اپنوں نے دی ہے دعا سے بھی زیادہ |
در و دیوار وہ اب ترستے روشنی کو |
جہاں پل پل جلا میں دیا سے بھی زیادہ |
کوئی صورت خیالوں میں گم صم جو کھڑی تھی |
مِرے نزدیک ہو کے قضا سے بھی زیادہ |
حقیقت جب کھلی تو وہی مکار نکلا |
جسے اندھوں نے چاہا خدا سے بھی زیادہ |
تری بے گانگی نے تباہی خوب لائی |
جدائی میں وہ مہلک بلا سے بھی زیادہ |
سمجھ پایا نہ اس دوستی کو میں کبھی بھی |
غرض جس میں چھپی تھی وفا سے بھی زیادہ |
ترقی کا اثر ہے کہ سب کہنے لگے اب |
بڑھی نفرت فضا میں وبا سے بھی زیادہ |
کہیں ماں باپ کی لاڈلی نازوں پلی تھی |
کہیں پستی گئی خود حنا سے بھی زیادہ |
کرے جو چاپلوسی ،ضیا، بچتے بچاتے |
وہی ہے پاس اس کے سگا سے بھی زیادہ |
معلومات