کشتی نما تھیں آنکھیں جن میں ہمیں بٹھا کے |
اس نے ہمیں ڈبویا گرداب میں لے جا کے |
اس کو گماں کہ میری ہستی مٹا کے رکھ دی |
لیکن مجھے بچا یا رحم و کرم خدا کے |
سو بار بولنے سے اک جھوٹ سچ ہو جا ئے |
ایسے بھرم سے بگڑے امن و اماں فضا کے |
اپنی غرض کے چلتے بکھرے پڑے ہیں سارے |
کب متحد ہوئے ہم ایک انجمن بنا کے |
پیاسی زمیں پہ چھائیں یوں بارہا گھٹائیں |
برسی نہ تھیں کہ آئے جھونکے ادھر ہوا کے |
احساس برتری سے نکلی وہ شر پسندی |
دونوں طرف ہیں صاحب کچھ کبر اور انا کے |
آنگن میں چشتیوں کے نعرہ وہ رضویوں کا |
یہ تو نہیں تقاضے تھے احمدِ رضا کے |
معلومات