اٹھتی نہیں تھی اِدھر نگاہ کسی کی |
اب تو شرر بن کے دیکھے چاہ کسی کی |
وعدہ ترا وعدہ تھا اے جھوٹے فریبی |
تجھ سے ہوئی زندگی تباہ کسی کی |
دیکھ کہیں جشن ہے تو ہے کہیں ماتم |
دیکھ سسکتی ذرا وہ آہ کسی کی |
یاد نہ دستورِ خاص اور قسم بھی |
یاد رہی بس تجھے تو ڈاہ کسی کی |
ضد یہ انا، تاج و تخت ایک طرف رکھ |
سنگ ترے کب ہوئی نباہ کسی کی |
کچھ تو خیالوں میں بھی دے غیر کو عزت |
یوں نہ گرا اب تو خوش کلاہ کسی کی |
سازشوں کے تحت، نفرتوں کے سبب سے |
کرنے لگا جانچ سر براہ کسی کی |
دولت و شہرت کے بیچ بند ہو جب کان |
کیسے کوئی سن سکے کراہ کسی کی |
کچھ سرِ بازار بکنے کے لئے آئے |
پہنچے یہاں تک تو وہ نگاہ کسی کی |
شکل و شباہت، کلام خوب ہے لیکن |
ان سے تو لگتی نہیں ہے تھاہ کسی کی |
لمحوں میں ہٹ جائے اس وطن کے برے دن |
گر لے خبر مردِ بادشاہ کسی کی |
عام بیاباں یہ تاج و تختِ رعایا |
خاص کوئی شے نہ شاہراہ کسی کی |
ہاں کوئی اس کا ضمیر لے نہیں سکتا |
مانے کہاں بات یہ گواہ کسی کی |
دہرِ غرض میں یہاں ہیں اپنے لئے سب |
مانگتے پھر کیوں، ضیا، پناہ کسی کی |
معلومات