جگر بنا ہے کباب اس کا
جسے جلائے شباب اس کا
چھپے چھپے سے رخ و جبیں ہیں
نظر کو رو کے نقاب اس کا
کچھ اختیار اب نہ نیند پر ہے
کبھی نہ آتا ہے خواب اس کا
ہر اک ستم، پر نگاہِ قدرت
کبھی تو لیگی حساب اس کا
وطن کے جلتے سوالوں پر کیوں
کبھی نہ آیا جواب اس کا
اگر کسی کا برا جو چاہے
ہوا ہے خانہ خراب اس کا
غبن کرے پھر کرے تباہی
کوئی نہ جانچے نصاب اس کا
دھواں دھواں سا فضا ہوئی ہے
کہیں جلا پھر حجاب اس کا

14