| ہم جن کو یہاں رہبرِ انسان سمجھ بیٹھے |
| وہ لوگ ہمیں کو یہاں نادان سمجھ بیٹھے |
| اپنوں کے اشاروں پہ وہ اپنوں کو کیاہے دور |
| لوگ اپنے جو تھے ہم کو بے ایمان سمجھ بیٹھے |
| سب چھین لیا ہم سے یہاں حق جو ہمارا تھا |
| اس میں سے ذرا سا دے کے احسان سمجھ بیٹھے |
| اک سوچ غلط جس نے بھری عام دماغوں میں |
| تعلیم شدہ بھی اسے بھگوان سمجھ بیٹھے |
| شہروں میں سرِ عام کرے خون خرابہ جو |
| لوگ آج اسی کو تو نگہبان سمجھ بیٹھے |
| خالص جو اترتے نہیں پیمانہِ انساں پر |
| بس خود کو وہی ہندو مسلمان سمجھ بیٹھے |
| سنتے رہے تقریر وہاں بن کے ضیا شاگرد |
| استاد یہاں خود کو شری مان سمجھ بیٹھے |
معلومات