| تیرا ستم امیروں میں مشہور بھی نہیں |
| لیکن عوام کی نگہ سے دور بھی نہیں |
| لے گا ترا حساب کسی دن یہیں کوئی |
| شاید ترا یہ ظلم ابھی بھر پور بھی نہیں |
| آئے عدم سے ہم لئے میثاقِ زندگی |
| آزاد ایک دم نہیں، محصور بھی نہیں |
| محتاجیوں کے بیچ پھنسی ہے یہ زندگی |
| مسرور بھی نہیں ہے تو مجبور بھی نہیں |
| دل میں پڑی ہوئیں ہیں لکیریں غرور کی |
| چہرے سے تو لگے کبھی مغرور بھی نہیں |
| میری بساط کیا ہے ترے شر کے سامنے |
| لیکن ارادے وہ ہیں جو ہوں چور بھی نہیں |
| میٹھی زباں سے بات کرے شانِ ہند کی |
| جن کو لحاظِ عزتِ دستور بھی نہیں |
| رسم و رواج خوب ہے اپنے سماج کی |
| کچھ کو پسند کچھ کو تو منظور بھی نہیں |
| اپنوں کے درمیان کہ غیروں کے بیچ میں |
| گم نام اگر نہیں ہے، تو مشہور بھی نہیں |
| موجودہ وقت میں ختم اب کیا الم ضیا |
| اب کیا مری طرح کوئی رنجور بھی نہیں |
معلومات