جو جتنا بَرا ہے وہ اتنا بڑا ہے
زمانہ اسی کے تو پیچھے کھڑا ہے
حق و عدل کی بات جس نے اٹھائی
وہی قید خانے کے اندر پڑا ہے
کوئی زندگی عیش و عشرت میں کاٹے
مِری زیست کا امتحاں کیوں کڑا ہے
کسی کو میسر نہ بوسیدہ کپڑا
کسی زرد پگڑی پہ موتی جڑا ہے
خریدے وہ نفرت جوانی کو دےکر
وطن میں نیا ایک ایسا دھڑا ہے
کبھی بھی نہ جمہوریت یہ مٹے گی
یہاں کی زمیں میں سرِ حب گڑا ہے
فلک تک نہ پہنچی مِری سب دعائیں
لگے یوں مزاجِ فلک چڑچڑا ہے
کرے بات اوروں کے درد و الم کی
زباں صرف شیریں تو دل کڑکڑا ہے
لڑا صرف سرمایہ داروں کے حق میں
غریبوں کے حق میں کہاں کب لڑا ہے
جو دستور نے دی جسے تخت و کرسی
اسی کو مٹانے پہ باطل اڑا ہے

41