| اپنا تو یہاں کوئی بھی نہیں اک یاد ہے تیری ساتھ مِرے |
| بھر بھر آہیں کٹتے ہیں اب اپنے تو سبھی دن رات مِرے |
| جب زخم نہ تھا تو ساتھ ترا تھا آج میں بے بس زخمی ہوں |
| دے کر کے تو نے زخم رسیلے بدلے ہیں حالات مِرے |
| ان کو وہ ملا جو کچھ بھی مانگا ہاتھ اٹھا کر دنیا سے |
| لوٹے ہیں فقط رسوائی لے کر اپنے دونوں ہاتھ مِرے |
| شاید تجھے بھی تھوڑا تھوڑا احساس ہے اپنے زخموں کا |
| جو آنسو بن کے ٹپکے تھے ایسے ہی کبھی جذبات مِرے |
| دے کون تسلی آج اے مالک آ کے ترے اس بندے کو |
| ہر شخص یہاں پر ہنستا ہے سن دیکھ ذرا حالات مِرے |
| برسوں کے بعد نظر آیا وہ چاند رجھاتے بادل سے |
| جس چاند کو لے کر آئی تھی گھر رم جھم کرتی برسات مِرے |
| مکار و جھوٹے اور فریبی ہی تو چلے بے خوف و خطر |
| حق اور کڑی باتوں سے چھپے پھرتے ہیں سبھی ہم ذات مِرے |
معلومات