کس وقت اس کو چھونے کی خواہش نہیں ہوئی
نظریں اٹھیں تو ہاتھوں میں جنبش نہیں ہوئی
سب پوجتے رہے جسے دن رات صبح و شام
اس کی کبھی تو مجھ سے پرستش نہیں ہوئی
کرتا ہے ظلم چہرہِ حق دار دیکھ کر
حق داروں پر کبھی تو نوازش نہیں ہوئی
کرنے لگا ہے کھل کے کوئی سازشیں وہی
برسوں برس یہاں پہ جو سازش نہیں ہوئی
سب پوچھتے ہیں اس کو جو قائم ہے جھوٹ پر
سچ پر رہا ضیا کوئی پرسش نہیں ہوئی

0
78