کس وقت اس کو چھونے کی خواہش نہیں ہوئی
نظریں اٹھیں تو ہاتھوں میں جنبش نہیں ہوئی
سب پوجتے رہے جسے دن رات ہر گھڑی
اس کی کبھی تو مجھ سے پرستش نہیں ہوئی
کرتا ہے ظلم چہرہِ حق دار دیکھ کر
حق داروں پر کبھی تو نوازش نہیں ہوئی
کرنے لگا ہے آج کوئی کھل کے سازشیں
برسوں برس یہاں پہ جو سازش نہیں ہوئی
جھوٹوں کو پوچھے ہر جگہ ایسا یہ دور ہے
سچ پر رہا ضیا جو تو پرسش نہیں ہوئی

0
71