مظلوموں پہ وہ ظلم و ستم اور کرے گا
جو چشم ابھی نم ہے اسے نم اور کرے گا
کھینچا ہے قدم پیچھے رہِ حق سے ہمیشہ
آئندہ پس و پیش قدم اور کرے گا
دیکھی نہیں جاتی ہے خوشی اس سے کسی کی
ایجاد کوئی وجہِ الم اور کرے گا
قانون کے پردے میں وہ شمشیر چھپا کر
کب تک سرِ قانون قلم اور کرے گا
عیاشیِ دل کے لئے دو چار محل کیا
تعمیر کئی باغِ اِرم اور کریگا
کچھ خوف نہیں نامِ خدا سے جسے لیکن
بد کام وہی کھا کے قسم اور کرے گا
ہنس ہنس کے بنائے جسے سب لوگ محافظ
تھا کیا پتہ وہ قہرِ الم اور کرے گا
دوری نہ بناؤ سنو نزدیک تو آؤ
تم ہی سے یہ دل چرچہِ غم اور کرے گا
آوازِ عوام ایک یہاں ہونے لگی ہے
یہ وقت بلند ایک علم اور کرے گا
جب ظلم کرانے سے بچے اس کی سیاست
پھر کیوں نہ وہ ظالم پہ کرم اور کرے گا

0
44