لگتا رہا دکھوں کا ہر تیر ہر قدم پر
کرتا رہا علاج و تدبیر ہر قدم پر
ایمان اور عمل پر ہم گام زن جو ہوتے
ہوتی نہ ذلتوں کی زنجیر ہر قدم پر
ان کو ملی ہے عزت نا حق پہ جو سدا ہے
حق پر چلا تو پائی تحقیر ہر قدم پر
کیا آ گیا زمانہ اپنا ہی دے نہ کاندھا
کاندھے تو بدلے آ کے رہ گیر ہر قدم پر
کوشش یہ اختیار و عقل و ہنر ملے پھر
ناکام اس طرح کیوں تاثیر ہر قدم پر

0
62