درِ مرشد پہ آئیں ہم عقیدت کا تقاضا ہے
لٹائیں قیمتی ہر وقت الفت کا تقاضا ہے
منور دل کو کر اپنے مزین روح کو اِم شب
تعلق باطنی مرشد سے قربت کا تقاضا ہے
فضا پر نور ہے ہر سو طفیلِ بو الُحسن چشتی
سجائیں کیوں نہ ہم محفل مسرت کا تقاضا ہے
دیا جب ہاتھ ان کے ہاتھ پر اور پھر پڑھا کلمہ
زبان و دل کریں ہم پاک بیعت کا تقاضا ہے
سلام و منقبت کا ورد کر دل کی زبانوں سے
درودِ پاک پڑھ حق کی ہدایت کا تقاضا ہے
تمنا آس لے کر آپڑی ہے آستانے پر
کرو پوری مِری بے چین حسرت کا تقاضا ہے
کہاں جاؤں یہاں سے میں بہت مشکل گھڑی آئی
کرم مجھ پر کرو یا پیر نسبت کا تقاضا ہے
سبب سب جانتے ہو مشکلوں بے چارگی کا تم
یہ مشکل دور کر دو خاص نصرت کا تقاضا ہے
گناہوں سے مِرا دفتر بھرا ہے روزَ اول سے
معافی چاہتا ہوں میں جبلت کا تقاضا ہے
دعا کیوں رائیگاں ہوتی رہی ہے آج تک میری
دعا مقبول کر یا رب وساطت کا تقاضا ہے
،ضیا، کو یوں نہ لوٹا دو یہاں سے بن دیے کچھ بھی
کرامت آج دکھلا دو کرامت کا تقاضا ہے

0
477