گدائی نہیں ہے ہماری گزارش
سنی جائے گی کب غریبوں کی نالش
ن فی میں خفی ہیں کئی رازِ مثبت
بدلنے لگی کروٹیں اپنی کاوش
وراثت پہ حق صرف اس کا نہیں ہے
کرے گا کہاں تک وہ سازش پہ سازش
حیا کب رہی بے حیا کی نظر میں
رہی بس پرائی زن و زر کی خواہش
چلے جو یہاں پر شریعت سے ہٹ کر
حمایت میں اس کی ہیں کچھ اہلِ دانش
ندامت کی ہے بے حسی سب دلوں میں
دماغوں میں ہے اور تکبر کی خارش
حلال و حرام و نجس کی تمیز اب
نہیں جن گھروں میں انہیں میں کشائش
غصب، پھر زنا بھی عبادت ریا بھی
بہت کچھ چھپا کر کرے کچھ نمائش
محلہ عدالت اقارب عدو تک
پہنچ لی مرے حاسدوں کی سفارش
ترستے رہے ہم ابھی تک گھروں کو
دبے کاغذوں نے دکھا دی رہائش
صداقت پہ چلنا نہ چھوڑیں کبھی بھی
ہو گر آفتوں کی کڑی دھوپ بارش
ضیا صبر سے دن برس ہا گزارا
خدایا نہ لے اور بھی آزمائش

0
51