میری آہوں میں اتنا جو اثر ہوتا |
تو حسنِ مغرور نہ یوں بے خبر ہوتا |
گھٹ گھٹ کے تو نہ جیتی آج امید اپنی |
مل کے بچھڑنے کا احساس اگر ہوتا |
رشتوں کے لئے دولت بھی تو ضروری ہے |
ورنہ کون کسی کا لختِ جگر ہوتا |
آج شریکِ حیات نہ بنتا وہ کسی کا |
میرے دوست کو وعدے کا پاس اگر ہوتا |
رشتے داروں کو دور کیا ہے غربت نے |
کاش کہ آج میں بھی ان کے ہم سر ہوتا |
معلومات