میری آہوں میں اتنا جو اثر ہوتا
تو حسنِ مغرور نہ یوں بے خبر ہوتا
گھٹ گھٹ کے تو نہ جیتی آج امید اپنی
مل کے بچھڑنے کا احساس اگر ہوتا
رشتوں کے لئے دولت بھی تو ضروری ہے
ورنہ کون کسی کا لختِ جگر ہوتا
آج شریکِ حیات نہ بنتا وہ کسی کا
میرے دوست کو وعدے کا پاس اگر ہوتا
رشتے داروں کو دور کیا ہے غربت نے
کاش کہ آج میں بھی ان کے ہم سر ہوتا

0
61