ہم اتنے ہی قریب ہیں اپنے نصیب کے |
جتنا کوئی قریب ہو در سے غریب کے |
ہم دور تھے تبھی تو نظر سے اتر گئے |
مدعو کیا انہیں کو جو بھی تھے قریب کے |
شیریں زباں پہ تلخ بیانی نہیں ہے آج |
لگتے نہیں کچھ اچھے ارادے رقیب کے |
حق بات بول بول کے اب چومتا ہے کون |
پھندے رسن کے اور وہ تختے صلیب کے |
دشمن کے دوستوں سے ملانا سنبھل کے ہاتھ |
تم دوست بھی کبھی رہے ان کے حبیب کے |
سب کے لئے دعا کرو ربِ کریم سے |
بھٹکی دعا پہ اب تو کرم ہو مجیب کے |
اپنی برائیوں پہ نظر ڈالتا کبھی |
دفتر بھرے پڑے ہیں یہاں خود منیب کے |
معلومات