عشق ہے جسے یہاں آمنہ کے لال سے
رب اسے بچائے گا حشر میں وبال سے
اتباعِ مصطفٰے جس کو جاں سے ہے عزیز
پائے گا اجر تبھی ربِ ذو الَجلال سے
کائنات کا سبب ایک نورِ حق ہے بس
جو چمک رہا ابھی تک کروڑوں سال سے
بجھ گئے جلے ہوئے سب چراغِ باطلاں
وہ خدا کے منتخب آخری جمال سے
لے لیا سرِ حسین کربلا میں تو عُدو
لے سکا نہ ہاتھ وہ فاطمہ کے لال سے
زیرِ پشت سنگِ گرم اور دل میں ذکرِ حق
کیا ہے دین سیکھ لیں حضرتِ بلال سے
میری قبر میں نکیرین جب ہوں روبرو
یا نبی نہ خوف ہو ان کے سہ سوال سے
سخت مشکلوں میں ہوں یا حبیبِِ کبریا
مجھ کو اب نکالو اس سخت زار حال سے
وہ قریب ہی رہے گا رسول پاک کے
جو قریب ہے مِرے مصطفٰے کی آل سے

0
126