بھلی فکرِ انساں کدھر کھو گئی ہے
تمیز و ادب اور ڈر کھو گئی ہے
شبِ تیرگی میں ہزاروں ہیں جگنو
اجالوں میں ان کے ڈگر کھو گئی ہے
ستارے فلک سے لبھاتے ہیں مجھ کو
انہیں میں ضیائے نظر کھو گئی ہیں
تلافی ہو کیسے گذشتہ دنوں کی
کہیں شامِ دل کش سحر کھو گئی ہیں
یوں تنگی کے حالات کب تک رہیں گے
چمک چہرے کی در بہ در کھو گئی ہے
ترے روبرو دست پھر سے اٹھا کیوں
خودی کیا تو اپنا سِحر کھو گئی ہے
چلا مدتوں پھر بھی آئی نہ منزل
کہ شاید مِری رہ گزر کھو گئی ہے
سخن کا اثر کچھ نہ پتھر دلوں پر
زباں اب یہ اپنا اثر کھو گئی ہے
ہے احسان جس کا مذمت اسی کی
کچھ اک میں تمیزِ بشر کھو گئی ہے
سماجوں میں نفرت وبا بن کے پھیلی
وہ تہذیب و ملت کدھر کھو گئی ہے
ہے کیوں رات بھر کشمکش میں مِری جاں
نہ جانے تسلی کدھر کھو گئی ہے
جد و جہد قسمت کے تیر و نشانے
مِری تو کمانِ ہنر کھو گئی ہے
پریشان مجھ سے کہیں تو نہیں وہ
کہ اپنی غرض ہی تو ڈر کھو گئی ہے
ہے صیاد خوش ایک پنجڑا بناکے
گماں ہے کہ چڑیا یہ پر کھو گئی ہے
وسیع و کشادہ کئی آسماں ہیں
جہاں عقل اپنا سفر کھو گئی ہے
وہ چاہے تو لوٹا دے سورج کو پھر سے
،ضیا، کی ضیا گر عمر کھو گئی ہے

0
85