ہجر کی رات میں روتی ہیں کسی کی آنکھیں |
اور کہیں چین سے سوتی ہیں کسی کی آنکھیں |
لعل و گوہر ہو کہ یاقوت مگر ان سب کو |
مات دے دے جو وہ موتی ہیں کسی کی آنکھیں |
راہ سونی ہو اگر رات اندھیری تنہا |
ایسے حالات میں جوتی ہیں کسی کی آنکھیں |
کون سنتا ہے یہاں آکے صدائیں دل کی |
دل میں جب کانٹے چبھوتی ہیں کسی کی آنکھیں |
ایک وہ چہرہ ترا بیچ میں سب پتلیوں کے |
کچھ پلک ڈھانپے تو دھوتی ہیں کسی کی آنکھیں |
سیکڑوں حسرتوں کی سِلوٹیں ہیں بستر پر |
اور تکئے کو بھگوتی ہیں کسی کی آنکھٰیں |
گل تو کھلتے ہیں ابھی بھی بے رخی کے لیکن |
ہار ان ہی سے پروتی ہیں کسی کی آنکھیں |
غیروں سے خوب ترا میل بڑھا ہے پھر بھی |
خواب ہی خواب سجوتی ہیں کسی کی آنکھیں |
کوششیں، منتیں جاری رہے ہر شام و سحر |
خوش تبھی تو جا کے ہوتی ہیں کسی کی آنکھیں |
معلومات