سزا مجھ کو ملی ہے آج ماضی کے گناہوں کی
اکیلا چھانتا ہوں خاک اِن سنسان راہوں کی
دیا تھا حکم طوفاں نے اسے اس پار جانے کا
بھنور میں ہی ڈُبا ڈالی بھری کشتی پناہوں کی
اب ان کی مہر بانی اور بھی جھیلی نہیں جاتی
چھپی ہے مہر بانی میں سلگتی آگ شاہوں کی
دل و جان و جگر اب وہ بچانے کس جگہ جائیں
بہت ہونے لگی ہے دھوپ کڑوی ان نگاہوں کی
بدی کا ہو ارادہ یا کہ نیکی کی جو نیت ہو
مکمل ہو وہ جاتی ہے کسی دن چاہ چاہوں کی
اتاریں ہم تعصب سے بھرا رنگین تو چشمہ
دکھے گی صاف اصلی شکل نقلی بادشاہوں کی
برا ہو یا بھلا ہو کام لوگوں کو غرض کیا ہے
ملائے صرف ہاں میں ہاں نکمے سر براہوں کی
حیا کیا چیز ہے محکوم ہونٹوں کو پتہ ہے کیا
دماغوں میں بھری ہے سوچ گندی رو سیاہوں کی
کوی کا شغل ہے چاروں ستونوں پر نظر رکھے
حفاظت بھی کرے وہ عام جمہوری رفاہوں کی
جدھر دیکھو ضیا سب لوگ اپنوں ہی کو پہچانے
کمی ہونے لگی ہے دیش کے ان خیر خواہوں کی

0
61