| شام نے زلفیں اپنی سنواری تو کیا |
| رات اپنی کہیں اور گزاری تو کیا |
| کیا ہے لینا کسی کو گئی راتوں سے |
| اب کوئی شب نہیں بھی کنواری تو کیا |
| چاندنی تو نمودار ہو کے رہی |
| لاکھ تھی ابر کی پہرےداری تو کیا |
| بات پہلے نہ مانی مگر آج کیوں |
| ہو رہی اب اسے بے قراری تو کیا |
| حال میرا یہی تھا یہاں پر کبھی |
| رخ پہ گنگ و جمن اب ہے جاری تو کیا |
| ٹھوکروں کا ہمیشہ سے عادی ہے دل |
| جان کر تونے ٹھوکر بھی ماری تو کیا |
| راس پیروں کو آئے چبھن کانٹوں کی |
| ہو گلوں سے بھری سب کیاری تو کیا |
| ہو کے رسوا نہ چپ بیٹھیں سوچیں ذرا |
| صرف چھپ چھپ کریں آہ و زاری تو کیا |
| کھل نہ پائے کبھی سخت پتھر پہ گل |
| آنسوؤں سے کریں آبیاری تو کیا |
| ختم ہوگا نہ طرزِ تغافل ، ضیا، |
| لاکھ ان سے کریں انکساری تو کیا |
معلومات