غزل آپ کی ہے کہانی مِری
سنو کچھ کہانی زبانی مِری
بہت کش مکش میں یہ قسمت رہی
کٹی خلوتوں میں جوانی مِری
کئی دوست بن کے بچھڑ بھی گئے
ہے تنہا ابھی زندگانی مِری
میں جس کو ملا بس تو گھل مل گیا
ہو پہچان جیسے پرانی مِری
چلا تھا پریشان گاؤں سے میں
وہی شہر میں بھی گرانی مِری
اتر تو گئے پار سب ہاں مگر
ڈبویا مجھے باد بانی مِری
خموشی سے رہنا، کوئی اے ضیا
نہ سمجھے اسے بد گمانی مری

0
41