نہ نفرتوں میں اثر ہوتا تو میں بھی وہاں ہوتا
وہاں بے گھر نہیں ہوتا وہیں مِرا مکاں ہوتا
لہو لہان ہیں غنچے نظارہ ہے یہ چمن کا
ترے نہ ہونے سے شاداب آج گلستاں ہوتا
پہنچ گئی ہے وہ آتش نظر سے جان و جگر تک
یوں ہجرِ یار میں دل سے نہ اٹھ رہا دھواں ہوتا
ہر ایک چاہنے والا اگر دعاؤں سے مجھ کو
نوازتا تو مِرا حال یہ زیاں کہاں ہوتا

0
3