عمل اگر نہ ہو تو صرف خوش خیال کیا کرے
دلی سکون کے لئے ذخیرہ مال کیا کرے
یہ مغربی چلن کہ نیم برہنہ چلے پھرے
کھلے دماغوں پر اثر کوئی زوال کیا کرے
سمجھ سکے نہ جب کوئی کبھی اشارے لمحوں کے
تو ایسے لوگوں پر، مہینہ اور سال کیا کرے
چمن کو چھوڑ جائیں گے گل و شگوفہ ایک دن
ابھی سے باغباں کرے ملال ڈال کیا کرے
ہے ہر طرف تعصبی، خموش ہیں عدالتیں
کوئی اب ان عدالتوں میں عرضِ حال کیا کرے
نہیں ہے بہرا کان سے، اندھا نہیں ہے آنکھ سے
پر اب نہ کھولے لب تو ان گنت سوال کیا کرے

0
62