دیوانگی میں ہی ، میں نے کیا کیا نہ کھو دیا
ہنستا رہا غموں پہ کبھی پل میں رو دیا
اڑ کر کہاں میں جاؤں نشیمن سے اس گھڑی
امید کے پروں کو کسی نے بھگو دیا
درد و الم فراق ، جو کچھ تجھ سے ہے ملا
دل میں سمو لیا، تو نے سامان جو دیا
ہردم زبانِ دل پہ مچلتے ہیں لفظ دو
چاہت نے آہ اوہ یہی لفظ تو دیا
انجان ہونٹوں کا جو نشاں روئے گل پہ تھا
رو کر کسی غریب نے اشکوں سے دھو دیا
کتنی ہے تیز دیکھ اسے تیز ہر نظر
باتوں سے پہلے خار جگر میں چبھو دیا
ممنون ہوں ترا میں جوابی لفافہ کا
لیکن یہ آنسوؤں نے لفافے کو دھو دیا
دکھتے نہ تھے کنارے بھنور بھی قریب تھا
آخر میں نا خدا نے بھنور میں ڈبو دیا

0
41