کون راہزن سب کا کون راہبر ہوگا
کچھ خبر نہیں پھر بھی طے یہ تو سفر ہوگا
آدمی میں ہی اک گن عام طور پر ہوگا
عقلِ جانور لیکن شکل سے بشر ہوگا
نقطہِ نظر بدلا دورِ حاضرہ کا بھی
ڈھوندتے ہیں سب زہرِ مار میں شکر ہوگا
جس میں ہو ریا کاری جھوٹ اور دغا بازی
عام و خاص میں وہ کیوں شخص معتبر ہوگا
ہو چکا ہے چھلنی تن تیرِ غم کے زخموں سے
میں نہ جانوں حملہ تن پر اب اور کدھر ہوگا
تم نہ ہوگے جب اس بے بس نظر کے گرد و پیش
دل کے پاس وہ تیرا تحفہِ نظر ہوگا
کس طرح رسائی ہو ان حسین چہروں تک
ان پہ تو زمانے کا پہرہ ہر پہر ہو گا

0
50