کر نہ سکے ہم بات وہ پوری، بات بھلائے اب نہ بنے
تب تھے کہاں حالات برے، حالات بھلائے اب نہ بنے
لمس ہوا نظروں کا جب تو شرم کے بادل اور جھکے
ماتھے سے پھر برسات ہوئی، برسات بھلائے اب نہ بنے
جشن میں لوگوں کے درمیاں تو جیسے تاروں کے بیچ ہو چاند
تھی وہ تری بارات سجی، بارات بھلائے اب نہ بنے
جسمِ کنول خاموش وہ تھا ملبوس سنہرے جوڑے میں
ہاتھ ترے مہندی سے رچے وہ ہاتھ بلائے اب نہ بنے
کرتے ہیں خاص تو ان کی عزت رہبرِ دین سمجھ کر ہی
آگئے اپنی ذات پہ آخر ذات بھلائے اب نہ بنے
چھپ کے چھپا کے میرے سوا اوروں کا بھی تو ساتھ لیا
گزرے جو لمحے ساتھ ترے، وہ ساتھ بھلائے اب نہ بنے
آتے رہے ہم کام سبھی کے جن کو ضرورت آن پڑی
ان سے ہمیشہ گھات ملی، وہ گھات بھلائے اب نہ بنے
ایک الگ ہی روپ ترا منبر سے ہٹ کر دیکھا ہے
ایک الگ منبر سے ترے خطبات بھلائے اب نہ بنے
سرسوں کے پیلے کھیت کہیں راتوں میں کہیں وہ چاند ضیا
دل کش وہ سب روپ لئے دیہات بھلائے اب نہ بنے

0
37