ہمارے درمیاں ہی ایسے کچھ مکار بیٹھے ہیں
یہاں کا راز لینے کو چتر ہشیار بیٹھے ہیں
کئی عاقل کئی عالم لگے ہیں ان قطاروں میں
جہاں پہلے سے ہی جاہل سرِ دربار بیٹھے ہیں
گلی میں کون آئے کون جائے ہر گھڑی پہرہ
لگا کر ٹکٹکی در پر پسِ دیوار بیٹھے ہیں
ادب میخانے کا سکھلائے کیسے کون دونوں کو
یہاں تو مست ہو کے ساقی و میخوار بیٹھے ہیں
لُٹی جمہوریت میں حکم اب تو راج شاہی کا
جسے نافذ کرانے کو تو تھانے دار بیٹھے ہیں
سمندر میں بھری کشتی لگاتی جائے تو غوطے
کنارے پر تماشائی لئے پتوار بیٹھے ہیں
سماجی اقتصادی جھوٹ پر ہر شام کو بحثیں
جہاں انسان بن کر شاطرو عیار بیٹھے ہیں
کوئی وعدہ حکومت آج تک پورا نہ کر پائی
عوام الناس بجھتی آس سے بیزار بیٹھے ہیں
جدھر دیکھو ادھر موجودگی ان کی نظر آئے
خبر کس کو کہاں اس میں چھپے خوں خوار بیٹھے ہیں
امیدوں کی کرن نکلے گی کل یہ سوچ کر دن رات
اسی میں نو جواں اپنی جوانی ہار بیٹھے ہیں
غریبی میں اکیلا چھوڑ دیتے ہیں سگے اپنے
امیری ہو اگر تو اپنے سب غم خوار بیٹھے ہیں

0
15